بات یہ ہے کہ بھارت کا معاشرہ سو ددر سود کی لعنت کی وجہ سے پس رہا ہے۔ جس میں کسان سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ مودی حکومت نے کسانوں سے مشورے کے بغیر کوآپریٹو فارمنگ کے لیے تین زرعی بل پاس کر لیے ہیں۔ اس قانون کے خلاف بھارتی عوام کے لیے غلہ پیدا کرنے والے٦٢ کروڑ کسان اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔بھارت اپوزیشن بھی کسانوں کے ساتھ ہے۔ راہول نے کہا کہ کسان ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ کسان کہتے کہ موجود قانون میں اگر یہ شق ڈال دی جائے کہ ایمنسٹی کی قیمت سے کم کوئی بھی کسان سے زرعی اجناس نہیںخریدے گا۔ جو خریدے تو اسے قانون کے مطابق سزا ملی گی۔ مگر مودی حکومت ضد پر اڑ گئی۔کسانوں نے ملک گیر احتجاج شروع کیاہوا ہے۔ دو ماہ چار دن سے اپنے گھروں سے باہر مرد و خواتین شدید سردی میں کھلے میدانوںمیں پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دوران ڈیڑھ سو کے قریب کسان مر چکے ہیں۔
مذاکرات کے بھی کئی دور ہوئے مگر مسئلہ حل نہ ہو سکا۔مودی حکومت نے کہا کہ کچھ سالوں کے لیے اس قانون کو بلاک کر دیتے ہیں۔مگر کسانوں نے کہا کہ یہ ہمارے خلاف چال ہو سکتی ہے۔مودی حکومت پو رے قانون کو واپس لے۔ کسانوں نے دہلی پردبائر بڑھانے کے لیے لاکھوں کسانوں کو جمع کیا ہوا ہے۔ دہلی غازی آباد کے باڈر پر،دہلی ٹیکری باڈر پر اوردہلی سنگھو باڈر پر ارد گرد کسان لاکھوں کے تعداد میں جمع ہیں۔ کسانوںنے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے ٢٦جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے دن دہلی کے سرکولر روڈ پر ٹریکٹروں کی ریلی نکالی۔حکومت اورکسان لیڈروں میں طے ہوا تھا تھا کہ، گیارہ بجے بھارتی یوم جمہوریہ کی پریڈ ختم ہو گی ۔ اس کے بعد کسان اپنے ریلی نکال لیں اور پانچ بجے تک ختم کر دیں۔اس دوران کچھ ٹریکٹروں کو ایک مشہور گانے والے ، جس کی فوٹو، مودی اور امیت شاہ کے ساتھ دکھائی گئی ،اس نے دھوکے سے کسانوں کو لال قلعے میں داخل کیا۔
لال قلعے میں خالصتان کاجھنڈا لہرا دیا۔پھر پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔ اس دوران ایک ٹریکٹر چلانے والا جوان ٹریکٹر الٹنے سے مر گیا۔ کسانوں نے اس کی موت کا ذمہ وادر حکومت کو ٹھیرایا۔ درجنوں پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ اسی ہنگامے کوبہانہ بنا کر حکومت نے کسان لیڈروں، خصوصی طور پر راکیش ٹیکیت پرپولیس نے مقدمہ قائم کر دیا گیا اور کہا کہ اس غیر قانونی کام کا جواب دو۔اسی دوران بی جے پی کے لگ بھگ ٤٠٠ کارکن جو ڈھنڈوں سے لیس تھے، کسانوں پر ہلہ بول دیا۔ کہنے شروع کر دیا کہ دو ماہ سے ہمیں گھروں میں تم لوگوں نے بند کر دیاہے ۔ یہ احتجاج ختم کر کے یہاں سے اپنے اپنے گھروں کوجائو۔ تم آتنگ وادی ہو۔ گودی میڈیا نے اسے خوب اُچھالا۔ حکومت نے کسانوں کے جائز مطالبات ماننے کے بجائے ان کو آتنک وادی قرار دیا ہوا ہے۔جبکہ بی جے پی کے کارکنوں اور پولیس ولوں نے کسانوں کے ٹریکٹروں اور گھاڑیوں کے ٹائروں سے ہوا بھی نکال دی۔کسانوں کے خمیے اُکھاڑ دیے ۔کسان خوف کی وجہ سے واپس گھروں کو چل دیے۔ راکیش ٹیکیت کا میڈیا میں یہ کہنا تھا۔
حکومت کوپولیس استعمال کرنے چاہیے۔ اس میں ایک سیاسی پارٹی کے کارکنوں کو مداخلت کا حق نہیں پہنچتا۔ذرائع کہتے ہیں یہ حکومت کا پرانا طریقہ ہے ۔ اپنے غنڈوں سے حقوق مانگنے والوں کوپٹواتے ہیں۔جیسے کہ کچھ عرصہ پہلے شہریت کے کالے قانون کے خلاف مسلمانوں نے دہلی میں احتجاج کیا۔ مسلمان خواتین پر آر ایس ایس کے غنڈوں نے حملے کیے۔ساٹھ (٦٠)سے زاہد کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔ لاکھوں کی پراپرٹیاں لوٹ لی گئیں۔پھر برائے نام تحقیق ہوئی اور مودی نے معاملہ دبا دیا۔ ایساہی کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔بھارت کے آئین سے دفعہ ٣٧٠ اور ٣٥ اے غیر قانون ختم کیا گیا۔کشمیری آج تک احتجاج کر رہے ہیں اوربھارتی فوج ان کی نسل کشی کر رہی ہے۔اس سے بھی قبل اندرا کے قتل کے وقت بھارت میں بے گناہ سکھوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔گجرات میں مودی نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر چکا ہے۔بھارت سے علیحدہ ہونے کے لیے درجنوں مسلح تحریکیں بھارت میںچل رہی ہیں۔
کسانوں کے ساتھ بھی مودی حکومت پہلے جیسا سلوک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کسانوں پر دبائو بڑھانے کے لیے پولیس نے فلیگ مارچ بھی کیا۔سڑک کی ایک طرف کسان اور دوسری طرف پولیس تیار کھڑی رہی۔ پولیس نے بھی کسانوں کے خیمے اُکھڑ دیے گئے۔ بجلی اور پانی بند کر دیا گیا۔راکیش ٹیکیت پر مقدمہ قائم ہوا۔ کہا گیا کہ احتجاج ختم کرو ورنہ گرفتار کر لیے جائو گے۔ راکیش ٹیکیت پریس کے سامنے روتے رہے۔ کہا کہ جب تک میری گائوں سے پانی نہیں آئے گا ۔ میں پانی نہیں پیوں گا۔ پھر اس کے گائوں سے ٹریکٹروں پر لوگ آئے ۔ ساتھ پانی لائے اور راکیش ٹیکیت نے میڈیا کے سامنے اپنے گائوں کا پانی پیا۔ دہلی کے وزیر اعلی کھنجر وال نے اپنا ایک نمائندہ راکیش ٹیکیت کے پاس بھیجا ۔اس نے پریس کے سامنے کسانوں کے حق میں آواز اُٹھائی۔ بجلی بحال کر دی گئی۔پانی کی کئی ٹینکر بھی مہیا کر دیے گئے۔راکیش ٹیکیت نے کہا کہ میں گرفتاری نہیں دوں گے۔میں نے بی جے پی کے کارکنوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سکھ کسان ملک دشمن ہیں۔ آتنک وادی ہیں۔ہم ان کی پگھڑیاں اُتاریں گے۔
راکیش ٹیکیت نے کہا کہ میں سکھوں کو اکیلا چھوڑ کر گرفتاری نہیں دوں خود کشی کر لوں گا۔ اس نے کہا کہ ہم پر امن ہیں اور یہاں ہی رہیں گے۔ جب تک کالے قانون واپس نہیں لیے جاتے۔ واپس نہیں جائیں گے۔ بی جے پی والوں ے ہمارے کسانوں پر ڈنڈے کیوں برسائے ۔ قانون کے مطابق پولیس موجود ہے۔ اگر ہمارے اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو حکومت کو پولیس استعمال کرنے چاہیے نہ کہ سیاسی کارکنوں کو۔اگر کسی نے قانون توڑا ہے تو اس پر مقدمہ قائم کیا جائے ۔ جرم ثابت ہونے پر قرار واقعی سزا دی جائے ۔ ہم غیر قانونی کام کرنے والے کے ساتھ نہیں ہیں۔غازی آباد باڈر پر ارد گرد سے سے لوگ واپس آگئے ہیں۔ عورتوں نے مردوں سے کہنا شروع کر دیا کہ تمھارا لیڈر تو میدان میں ڈٹ کر بیٹھا ہوا ہے اور تم گھروں میں ہو۔جائو اس کا ساتھ دو۔ کسان پھر سے منظم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔معاملہ سنگین سے سنگین ترین ہوتا جا رہا ہے۔مودی حکومت ضد پر اڑی ہوئی ہے۔ بھارت کے کچھ غیر جانب دار ٹی وی چینل کسانوں کے حق میں بول رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسان محبت وطن ہیں۔ ان کو آتنک وادی کہنابند کرو۔ ان کے جائز مطالبات منظور کرو۔دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے؟