تحریر : سید انور محمود پاکستان وہ ملک ہے جس نے چیمپئنز ٹرافی کی بنیاد 1978ء میں رکھی تھی، چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی ٹائٹلز جیتنے والے گرین شرٹس اسکواڈ میں شامل65 سالہ شہنازشیخ جو اس وقت پاکستانی ٹیم کے کوچ ہیں بھارتی شہر بھوبھنیشور میں بھارتیوں سے کہہ رہے تھے کہ مجھے بھارت آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، اس ملک میں میرے بہت سے دوست موجود ہیں۔ بھارتی ریاست اڑیسہ کےشہر بھو بنیشور میں 6 دسمبر سے شروع ہونےوالے چیمپئنز ٹرافی میں آٹھ ٹیموں نے شرکت کی ، ٹورنامنٹ میں پاکستان کو اپنے تینوں ابتدائی میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پہلے میچ میں پاکستان کو بیلجیئم نے دوسرے میں انگلینڈ نے ا ور تیسرے میچ میں آسٹریلیا نے شکست دی تھی۔ خوش قسمتی سے کوارٹر فائنل میں پاکستان نے ہالینڈ کو 2 کے مقابلے میں 4 گول سے شکست دے کر سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کر لیا ہے۔ ایک موقع پر میچ 2،2 گول سے برابر ہو گیا تھا تاہم کھیل کے آخری لمحات میں پاکستان نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید 2 گول داغ کر مقابلہ اپنے نام کر لیا۔ قومی ٹیم کی جانب سے کپتان محمد عمران اور عمر بھٹہ نے ایک ایک جب کہ محمد عرفان نے 2 گول اسکور کئے۔ قومی ٹیم کے کپتان محمد عمران کا کہنا تھا کہ پوری ٹیم جذبے سے کھیلی اور جیت گئی، بھارتی عوام نے بہت سپورٹ کیا جس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ گیارہ دسمبر تک پاکستانی ہاکی ٹیم کے کوچ شہناز شیخ اور کپتان محمدعمران ایک کھلاڑی کی حیثیت سےبھارتیوں کو اپنا دوست سمجھ رہے تھے۔
تیرہ دسمبر کو چیمپئنز ٹرافی کےسیمی فائنل میں سخت اورسنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان بھارت کو تین کے مقابلے میں چار گول سے شکست دیکر16سال بعدٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ گیا، پاکستان کی جانب سے ارسلان قادرنے دوجبکہ وقاص اور محمدعرفان نے ایک ایک گول کیا، کامیابی کے بعد پاکستانی کھلاڑی سجدہ ریز ہوگئےاورپوری ٹیم نے گرائونڈ کا چکر لگایا، بعض کھلاڑیوں نے خوشی میں شرٹ اتار کر ہوا میں لہرائی۔ پاکستان کی جیت پربھارتی شہربھوبنیشورکے کالنگااسٹیڈیم میں موجودبھارتی سورماؤں اورہزاروں تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیااوران کے رنگ اڑگئےجبکہ میدان میں سناٹا چھاگیا۔ اس کے فورا بعد بھارتی تماشائیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں پربوتلیں پھینکیں اور نعرے بازی کی، پاکستانی کھلاڑیوں کو گالیاں دیں۔ اُسکے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے جوکیا وہ ہر گز نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ اُنھیں اکسایا گیا، بھارتی تماشائیوں کے بارئے میں پوری دنیا میں صرف ایک رائے ہے کہ بھارتیوں نے کسی بھی کھیل میں ہار کو قبول کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ جہاں تک کھلاڑیوں کی قمیض اتارنے کا تعلق ہے توسابق اولمپین سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ کھلاڑی جیت کا جشن مناتے ہیں اور شرٹس اتار کرجشن منانا کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی نہیں آتی۔ ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ جو حرکتیں پاکستانی کھلاڑیوں نے کیں وہ پاکستانی معاشرہ میں بھی ناپسندیدہ عمل ہیں۔ سیمی فائنل کے بعد پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ شہناز شیخ نے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر سے معافی مانگ لی تھی اور انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے کسی بھی قسم کی کارروائی کا کوئی عندیہ نہیں دیا تھا۔
سیمی فائنل میں پاکستان سے شکست ہضم کرنا متصب بھارتی میڈیا کےلیے بھی ناممکن تھا۔چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کیخلاف فتح کے بعد مقامی میڈیا کے نامناسب رویے کے بعد پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے پریس کانفرنس سے واک آؤٹ کردیا۔ پاکستانی کوچ شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا نے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے ہیں۔ شہناز شیخ نے بتایا کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کی غلطی پر معذرت کی لیکن بعض بھارتی صحافی معاملے کو طول دینا چاہتے تھے۔ شہناز شیخ کے مطابق انہوں نے میڈیا سے کہا کہ صرف ہاکی پر بات کی جائے لیکن وہ بازنہ آئے، جس کے بعد پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا گیا۔پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمران نے کہا کہ جیت کا جشن منانا ہمارا حق ہے اگر کوئی غلط بات ہوئی بھی ہے تو کوچ نے معذرت کرلی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری فتح پر بھارتیوں نے ایسا ردعمل دیا جیسے وہ جنگ ہار گئے ہوں۔
Hockey Team Celebrating
سیمی فائنل کے فوراً بعد ہی ٹورنامنٹ ڈائریکٹر نے شہناز شیخ کی وضاحت قبول کر لی تھی اور اس وقت کسی بھی کھلاڑی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی بات نہیں کی گئی تھی۔ جس کے بعد بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ہاکی فیڈریشن کے صدر نریندر بترا نے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن سے پاکستان کی شکایت کی کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھارت کے خلاف جیت کے بعد جس انداز میں رویہ اختیار کیا وہ درست نہیں،انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن پاکستان کےخلاف ایکشن لے،اس قسم کےرویےکےبعدبھارت ٹورنامنٹ کی میزبانی کاشوق نہیں رکھتا، پاکستان غیرمشروط معافی مانگے، جب تک پاکستان غیرمشروط معافی نہیں مانگتا، میچ نہیں کھیلیں گے۔ بھارتی شکایت انٹرنیشنل فیڈریشن نے مسترد کر دی تھی، جس کے بعد بھارت دھمکیوں پر اترآیا۔ بھارتی ہاکی فیڈریشن کے صدر نریندر بترا کی شکایت پر پاکستانی کوچ شہنازشیخ نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑی معافی نہیں مانگیں گے، بھارتی شائقین نے پاکستانی کھلاڑیوں کو اکسایا جس کے بعد ایسا ماحول بن گیا جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوگیا، پاکستانی کھلاڑی کسی طورمعافی نہیں مانگیں گے۔شہناز شیخ نے مطالبہ کیا ہے کہ میری ٹیم کی حفاظت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
فائنل والے دن بھارتی ہاکی فیڈریشن کے صدر کے بیان کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے طلب کرکے ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا اور دو کھلاڑیوں پر ایک میچ کی پابندی لگادی ۔ دو کھلاڑیوں پر پابندی کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن بھارت کے دباؤ میں تھی کیونکہ بھارتی ہاکی فیڈریشن کے صدر نے دھمکی دے دی تھی کہ وہ آئندہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے کسی ایونٹ کی میزبانی نہیں کریں گے، اس حرکت کا مطلب صاف تھا کہ پاکستان فائنل نہ جیت سکے اور ایسا ہی ہوا ، لیکن تیسری پوزیشن کے لئے کھیلے گئے میچ میں آسٹریلیا نے ایک کے مقابلے میں دو گول سے بھارت کو شکست دیکر وکٹری اسٹینڈ سے باہر کردیا۔ آخری لمحات میں بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستان کے ہاتھوں سیمی فائنل میں ہونے والی شکست کا بدلا آسٹریلوی کھلاڑیوں سے لینے کی کوشش کی اور بھارتی کھلاڑی کھیل کے دوران اپنی روایتی بدتمیزی پر اتر آئے تاہم میچ ریفری نے بیچ بچاؤ کرایا، تاہم اس بدتمیزی کے باوجود بھارتی کھلاڑیوں سے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے کوئی سوال نہیں کیا۔قبل ازیں 1982ء میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بھارت کے خلاف نئی دہلی میں سات گول کئے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب بال ٹھاکرے زندہ تھا اور اس نے پاکستان کی ٹیم کے بھارت میں کھیلنے کے خلاف سخت مزاحمت شروع کر رکھی تھی۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام میں طاہرعمران کے ایک مضمون ’کھیل کو جنگ سمجھتے ہو اور جنگ کو کھیل‘ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان مقابلے کے بعد کھلاڑیوں اور شائقین کے رویے اور اس کے بعد پابندیوں کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد میں پاکستانی دنیا بھر میں ٹوئٹر پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ حسن نثار سے منصوب ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے لکھا کہ ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت دنیا کا سب سے بڑا روتا بچہ ثابت ہوئی۔‘ پاکستانی ٹوئٹر صارفین نے پرانی تصاویر نکالیں جب بھارتی کھلاڑیوں اور ہاکی کے کھلاڑی نے اسی طرح کے نازیبا اشارے کیے مگر انھیں معافی مانگنے پر معاف کر دیا گیا۔ بھارتی کھلاڑیوں کے روتے ہوئے تصاویر اور وہ نازیبا اشارہ جس پر یہ طوفان کھڑا ہوا اب ہر اُس روپ اور رنگ میں ٹوئٹر پر ہے کہ جس نے نہیں بھی دیکھا وہ اب دیکھ رہا ہے اور بھارتی رویے کو کوس رہا ہے۔ جس پر تنقید کرنے والی بھارتیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس تناظر میں زرقا پال کی ٹویٹ کو بہت توجہ ملی جنھوں نے شاید بہت گہری بات ایک ٹویٹ میں سمو دی کہ ’تف ہے کہ بھارتی سورماؤں کھیل کو جنگ سمجھتے ہو اور جنگ کو کھیل۔۔۔افسوس۔‘ ابھیشیک گوریجہ نے ٹویٹ کی کہ’ شاباش سیاست دانوں آپ کی نفرت انگیزی کے نتیجے میں نفرت کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ اب یہ کھلاڑیوں تک ہی نہیں بلکہ آپ نے ہماری انسانیت ہی تباہ کر دی ہے۔‘ نام نہاد سیکولرازم کے دعویدار بھارت کے بارئے میں ایک مضمون میں نے فروری 2013ء میں بعنوان “آیئے آپ کو ہندوستانی بچھوؤں سے ملاتا ہوں” لکھا تھا۔ اُس مضمون کے شروع لکھا تھا ، “حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ” بچھوؤں کی پیدائش عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتی، اپنی ماں کے پیٹ میں جب یہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے تو اندر سے پیٹ کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سوراخ کر کے باہر آ جاتا ہے”۔ حضرت سعدی مزید فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ایک دانا کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ بات درست ہی ہوگی بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے پہلے دن سے برائی ہی کی ہوگی”۔ ڈنک مارنا بچھوکی فطرت ہےاورچیمپئنز ٹرافی میں بھارت کا کردار ڈنک مارنے والے بچھوکی فطرت جیسا ہی تھا،بچھوکی خصلت رکھنے والے بھارتیوں کچھ تو شرم کرو۔