انڈس ہائی وے پشاور سے کراچی تک 1264 کلومیٹرطویل قومی شاہراہ ہے ،جو اس وقت نیشنل ہائی وے( NHA) کے زیرِ انتظام و انصرام ہے۔یہ پشاور سے براستہ کوہاٹ،کرک،لکی مروت، ڈیرہ اسمعیل خان، تونسہ شریف،ڈیرہ غازیخان،کشمور،لاڑکانہ،جام شورو اور حیدر آباد سے ہو تے ہوئے کراچی سے جا ملتی ہے۔کراچی سے خیبر پختونخوا اور افغانستان تک بھاری تجارتی سامان کی ترسیل نہ صرف اسی سڑک کی ذریعے ہو تی ہے بلکہ چترال، سوات بلکہ پورے پختونخوا کے لوگ کراچی تک کا سفر بھی اسی سڑک کے ذریعے کرتے ہیں کیونکہ یہ راستہ مختصربھی ہے اور اس میں وقت اور پیسوں کی بھی بچت ہو تی ہے۔اس کی تعمیر 1980 میں ہو ئی تھی۔اس ہائی وے کا پشاور تا ڈیرہ اسماعیل خان 297کلومیٹر حصہ اس وقت نہایت خستہ حالی کا شکار ہے ۔اب تک سینکڑوں لوگ اس روڈ پر حادثات کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں اور سینکڑوں لوگ مستقل معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔گزشتہ ہفتے لاچی کے قریب صرف ایک حادثہ میں 26 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ، زخمیوں کی تعداد الگ ہے۔اسی طرح کے بے شمار حادثات ماضی میں رونما ہو چکے ہیں، جسکی بڑی وجہ اس سڑک کی خراب صورتِ حال ہے۔
جگہ جگہ یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، ڈرائیور حضرات عموما اس سڑک پر موجود کھڈوں سے گاڑی کے ٹائرز بچانے کے لئے گاڑی کو ادھر ادھر لے جاتے ہو ئے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔تکنیکی لحاط سے بھی اس سڑک میں کئی خامیاں موجود ہیں، جو حادثات کا سبب بنتی ہیں۔بے شک ٹریفک حادثات کے کچھ دیگر وجوہات بھی ہیں مثلا تیز رفتاری ،غیر محتاط ڈرائیونگ،اوور ٹیکینگ،ون وے کی خلاف ورزی،دوران ڈرائیونگ مو بائل فون کا استعمال اور ڈرائیورز کا جلد باز رویہ ،مگر انڈس ہائی وے پر اب تک جتنے حادثات رونما ہو ئے ہیں ،ان میں زیادہ تر حادثات سڑک کی خستہ حالی اور ابتر صورتِ حال کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ نام کو تو یہ ہائی وے ہے مگر یہ کسی بھی لحاظ سے ہائی وے کی معیار پر پوری نہیں اترتی، اس سڑک پر اوور ٹیکینگ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
کیونکہ اس پر عموما بڑے ٹریلر، آئل ٹینکر اور سامان سے لدے ٹرک رواں دواں رہتے ہیں ، اس کے پیچھے جانے والی ٹریفک سامنے سے آنے والی گاڑیوں کے قطار ختم ہونے کے انتظار میں بے چین و بے قرار ہو کر خطرہ مول لیتے ہو ئے اوور ٹیکینگ کی کو شش میں حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں ،سڑک اتنی تنگ ہے کہ ٹریفک لوڈ کو برداشت کرنے کی اس میں سکت نہیں،پھر اس کی خستہ حالی اور جگہ جگہ کھڈے اور تکنیکی لحاظ سے غلط موڑ حادثات کی شرح کو چوگنا کر دیتی ہیں۔گزشتہ دورِ حکومت میں پنجاب میں کئی موٹر وے اور شاہراہیں تعمیر ہو ئیں مگر افسوس صد افسوس کہ خیبر پختونخوا میں سب سے اہم شاہراہ یعنی انڈس ہائی وے پر کو ئی توجہ نہیں دی گئی۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے عوام نے بار بار اس قومی شاہراہ کو موٹر وے بنانے یا کم از کم دونوں طرف چاررویّہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر کسی حکومت نے اس مطالبہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کو شش نہیں کی۔اگر چہ این ایچ این اے نے کوہاٹ تا گمبیلا روڈ کو چار لین بنانے کی منظوری بھی دی ہے اور باوثوق زرائع کے مطابق اس کا ٹینڈر بھی ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی تک کام ہو تا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔عموما ٰ وطنِ عزیز میںکسی پراجیکٹ کی خوشخبری عوام کو سنائی جاتی ہے ، بعض دفعہ تو ٹھیکہ بھی دے دیا جاتا ہے مگر پھر فنڈ کی کمی ،ٹھیکداروں کو بِل کی عدم ادائیگی اس منصوبے کو مکمل کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور اس منصوبے کی پایہ تکمیل تک پہنچنے میں سالوں سال لگ جاتے ہیں۔
اس اہم شاہراہ کی تعمیر میں بھی ایسی کو ئی رکاوٹ نظر آرہی ہے ، جس کی پردہ داری ہے ۔ورنہ یہ سڑک ،جس کی پیاس انسانی خون پیتے پیتے نہیں بجھتی، فوری تعمیر کی متقاضی ہے۔آئیندہ چند دنوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بننی والی ہے۔
عمران خان سے عوام کو بہت ساری توقعات ہیں۔ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے اور سطورِ ہذا کے ذریعے جنوبی اضلاع کے عوام کی طرف سے خصوصی گزارش بھی کی جاتی ہے کہ وہ اس روڈ کی تعمیر و تکمیل کے لئے فوری اقدامات اٹھائیںور جتنا جلد ممکن ہو سکے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر انسانی جانوں کے مزید ضیاع کو روکیں۔