16 دسمبر 1971ء کا دن تاریخ پاکستان کا سیاہ ترین دن ہے ،اِس دن ڈھاکہ میں لہلاتا سبز ہلالی پاکستانی پرچم ہمیشہ کیلئے سرنگوں کردیا جاتا ہے اور پاکستان دولخت ہو جاتا ہے، آج بیالیس سال گزرنے کے بعد بھی اِس سانحے کی کرچیاں ہر صاحب دل کے سینے میں پیوست ہیں، ذلت ورسوائی، بے بسی و بیچارگی کا یہ منظر چشم فلک نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو، اِس سانحہ عظیم پر ہزاروں آنکھیں اشکبار اور دل شدت غم سے معمور تھے، مگر طاقت کے نشے سے سرشار بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اُس دن انڈین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے بڑی رعونیت کے ساتھ کہہ رہی تھی ” یہ ہماری افواج کی فتح نہیں بلکہ ہمارے نظریے کی فتح ہے۔ ہم نے اِن (پاکستانی مسلمانوں) سے کہا تھا کہ اُن کا نظریہ باطل ہے اور ہمارا نظریہ برحق ہے لیکن وہ نہ مانے اور ہم نے ثابت کر دیا کہ اُن کا نظریہ باطل تھا۔ ہم نے نظریہ پاکستان کو آج خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ اِس موقع پر اندرا گاندھی نے مسرت سے جھومتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے اپنی ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
قارئین محترم! سقوط مشرقی پاکستان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، اِس المیے کے مختلف پہلووں پر قومی اور بین الاقوامی کالم نویسوں، تجزیہ نگاروں، مصنفوں اور عسکری دانشوروں نے قلم آرائی کی، کسی نے سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار اُس وقت کے فوجی حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کو ٹھہرایا تو کسی نے سیاست دانوں کومورد الزام ٹھہراتے ہوئے لکھا کہ ”حزب اختلاف کے رہنماؤں کے اندرونی اختلافات، مجیب الرحمن کے چھ نکات پر اصرار، بھاشانی اور بھٹو کا عدم تعاون اور گول میز کانفرنس کی ناکامی کے نتیجے میں پر امن اقتدار کی آخری کوشش دم توڑ گئی۔ اگر سیاست دان پرامن انتقال اقتدار کی راۂ میں حائل نہ ہوتے اور ایوب خان کے پارلیمانی نظام براۂ راست انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کرتے، آئندہ انتخابات میں امیدوار نہ بننے کی پیش کش قبول کرلیتے تو شاید ہمیں 1971ء کے المیہ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔” یوںمختلف زاویہ نگاۂ سے بہت سے تجزیئے ہوئے، سینکڑوں مقالات و لاتعداد کتابیں لکھی گئیں، مگر اِس المیے کی راۂ ہموار کرنے والے اصل بھارتی کردار پر کم ہی توجہ دی گئی۔
جبکہ تاریخی سچائی یہ ہے کہ بزدل اور شاطر ہندو بنیئے نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا، اکھنڈ بھارت کے زعم میں مبتلا ہندو بنیئے کیلئے تو پاکستان کا قیام کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھا، وہ اِس تقسیم کو بھارت ماتا کے ٹکرے ہونے سے تعبیر کرتا ہے، ہندو نیتاؤں کو یقین تھا کہ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست حالات کا مقابلہ نہیں کرپائے گی اور بہت جلد دم توڑ جائے گی۔ یہی وہ خوش فہمی تھی جس کی وجہ سے جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ”پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے اور یہ آخرکار متحدہ ہندوستان پر منتج ہو گی۔”نہرو کا ماننا تھا کہ پاکستان ناقابل عمل مذہبی نظریئے کی حامل قرون وسطیٰ کی ایک ریاست ہے۔ایک وقت آئے گا کہ بھارت کے ساتھ اِس کا الحاق ضروری ہو جائے گا۔
14جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے ایک قرار داد میں بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جب جذبات کا طوفان کم ہوگا تو ہندوستان کے مسئلے کا اُس کے صحیح پس منظر میں جائزہ لیا جاسکے گا اور دو قوموں کے باطل نظریئے کا کوئی حامی نہیں مل سکے گا۔”اِس قرار داد پر تقریر کرتے ہوئے کانگریسی” شوبوائے” مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ ”تقسیم کے عمل سے صرف ہندوستان کا نقشہ متاثر ہوا ہے ،لوگوں کے دل تقسیم نہیں ہوئے اور مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی ثابت ہوگی۔”آل انڈیا کانگریس کی یہ قرارداد پاکستان کے ساتھ ہندوستانی نیتاؤں کے رویئے پر ہمیشہ سایہ فگن رہی، چنانچہ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ لیڈر ”متحدہ ہندوستان”کا راگ الاپتے رہے اور کہتے رہے کہ ”کانگریس اور قوم دونوں متحدہ ہندوستان کے دعوئے سے دستبردار نہیں ہوئے۔”کیونکہ”بھارتی رہنماؤں کو ہمیشہ یہ یقین رہا کہ پاکستان کی تخلیق ایک غلط اقدام تھا اور پاکستانی قوم کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔”چنانچہ شروع دن سے ہی اُن کا پاکستان کی سا لمیت کیخلاف سازشوں میں مصروف ہونا ایک فطری عمل تھا،چنانچہ ہندورہنماؤں نے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کا گلا گھونٹنے کیلئے ہر وہ قدم اٹھایا جو اُن کے اختیار میں تھا،بھارتی سرکار ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔
جنوری 1966ء میں اندرا گاندھی کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی، اندرا گاندھی 1965ء کی جنگی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتی تھی، پاکستان کی خوفناک شکست اُس کے خوابوں کی تعبیر تھی، چنانچہ اُس نے شیخ مجیب الرّحمان سے تعلقات استوار کیے، مکتی باہنی بنوانے کیلئے اسلحہ اور رقم فراہم کی اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا۔”1970ء کے انتخابات کے بعد یہ پالیسی اُس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئی، جب بھارت کو روسی امداد کے مواقع میسر آئے اور اُس نے پاکستان پر وار کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ ”بھارت کیلئے یہ وہ سنہری موقع تھا جس کا اُسے عرصہ دراز سے انتظار تھا۔چنانچہ بھارت نے اِس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی اور شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری پر فوری ردعمل کا اظہار کیا۔
East Pakistan
” بھارتی وزیر اعظم نے 31 مارچ 1971ء کو انڈین پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کے ذریعے ٔ مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات پر شدید غم وغصہ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بنگالی باغیوں کی بھر پور مدد کی پیش کش بھی کی۔ اِس اجلاس میں بعض کانگریسی لیڈروں کے جوش وجذبات کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے اور پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کا بھی مطالبہ کیا۔ یوں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے علی الاعلان کسی خودمختار ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کا یہ مطالبہ دنیا کی سیاسی تاریخ کی واحد نظیر ہے۔ مشرقی پاکستان کے حالات کو خراب کرنے اور باغیوں کو بڑھاوا دینے کیلئے انہی ایام میں آل انڈیا ریڈیو سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا رہا کہ مجیب الرحمن نے اعلان آزادی کردیا ہے اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
دوسری طرف بھارت نے بنگالی مہاجرین کے مسئلے کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، بعد میں جو تقریباً دو لاکھ ہندو اور مشرقی پاکستان کے باشندے مغربی بنگال اور آسام پہنچے، بھارتی فوج نے انہیں نہ صرف سرحد عبور کرنے کی اجازت دی بلکہ مہاجرین کیمپ قائم کر کے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے ساتھ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کیلئے عسکری تربیت بھی دی اور بھارت نے مہاجروں کے مسئلے کو پاکستان پر حملے کیلئے بہانے کے طور پر بھی استعمال کیا۔ اِس بات کی تصدیق انڈین انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز کے ڈائریکٹر سبرامنیم کے اُس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ”بھارتی حکومت نے بڑے غور وفکر کے بعد اپنی سرحد بند کرنے کے بجائے مہاجروں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا، ایک لحاظ سے یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بارے میں بھارتی ہمدردیوں کا عکاس تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بنگلہ دیش میں مزاحمت کی تحریک کو برقرار رکھنا دشوار ہوجاتا۔ درحقیقت انڈین انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز کے ڈائریکٹر کے کابیان پاکستان کے خلاف بھارت کے حقیقی عزائم کا نہ صرف آئینہ دار ہے، بلکہ واضح کرتے ہیں کہ بھارت نے بہت پہلے ہی ہر چیز کی مکمل منصوبہ کررکھی تھی۔اُدھر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را” کو دیا جانے والا پہلا ٹاسک ہی مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنا تھا ،جس کو آپریشن ”بنگلہ دیش” کا نام دیا گیا، اِس آپریشن کے دوران ”را” نے مشرقی پاکستان میں صحافیوں، اساتذہ، دانشوروں سمیت ہر طبقہ فکر کو فکری دہشت گردی کے کام پر لگا دیا، اُس مقصد کیلئے بھاری رقوم مختص کی گئی،جبکہ اندرون اور بیرون بھارت بھی پاکستان کے خلاف زبردست میڈیا وار لڑی گئی، جس کے نتیجے میں بھارتی فوج کیلئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اُس پر عملی قبضے کا کام مزید آسان ہو گیا۔
یہ درست ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان توڑنے کی منصوبہ بندی تیار کی، مگر اِس منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے میں شیخ مجیب الرحمن نے مرکزی کردار ادا کیا، بھارتی عسکری تربیت یافتہ مکتی باہنی کے اِن گوریلوں نے مشرقی پاکستان کے ذرائع مواصلات، اہم سرکاری و نجی عمارتوں اور پاک فوج کے خلاف تخریبی کاروائیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف بھارتی فوج کی مدد و تعاون سے بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی اور کیمونسٹ پارٹی کے گوریلوں نے مشرقی پاکستان کے اندورنی حصوں کو اپنی تخریبی کاروائیوں کا مزکر بنایا اور اہم سڑکوں ،آبی راستوں پلوں اور سرکاری عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اِن تخریبی کاروائیوں نے معیشت کی بنیادیں ہلانے کے ساتھ، اندورنی اور بیرونی محاذوں پر نو ماہ سے مصروف پاک افواج کے مورال کو بھی نقصان پہنچایا۔بھارت نے جنگ کے جواز تراشنے کیلئے اُس نے مشرقی پاکستان کے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی حالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی پروپیگنڈہ مشینری کو بڑی مہارت اور کامیابی سے استعمال کیا،وہ ساری دنیا میں پروپیگنڈا کرتا رہا کہ مشرقی پاکستان کے عوام پر بڑے ظلم و ستم ہورہے ہیں۔ بھارت نے پاکستانی فوج اور پاکستان کو منظم طریقے سے بد نام کیا، بھارتی پروپیگنڈہ مشنری پاک فوج کے خلاف بار بار اِن تین بڑے الزامات کا اعادہ کرتی رہی کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کیا، تین لاکھ عورتوں کی آبروریزی کی گئی اور گاؤں کے گاؤں جلا دئیے۔
بھارتی میڈیا کا یہ جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ بین الاقوامی میڈیا نے بغیر تحقیق و تفتیش خوب اچھالا اور پاکستان کے تشخص کو اِس بری طرح مجروع کیا کہ پاکستان دنیا میں نفرت کا نشانہ بن کر تنہا رہ گیا۔ اِس طرح بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش کاز کیلئے دنیا بھر کی ہمدردیاں حاصل کیں بلکہ عالمی رائے عامہ کو بے بنیاد خبروں اور خود ساختہ داستانوں کا بھی کامیابی سے یقین دلایا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف نفرت اور تعصب کو ہوا دینے کیلئے یہ بات بھی تواتر سے دہرائی کہ پاکستان، بنگالیوں کے منتخب لیڈر مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے بنگالیوں کی قوم پرستانہ تحریک کو فوجی طاقت کے ذریعے ٔبے دردی سے کچل رہا ہے۔ یہ بھارتی پروپیگنڈے کا ہی اثر تھا کہ غیرملکی اخبارات نے ہندو اساتذہ اور دانشوروں کے قتل عام کی جھوٹی خبریں نمایاں سرخیوں میں شائع کیں، جس نے دنیا بھر کے دانشوروں، سماجی تنظیموں اور سیاسی لیڈروں کو پاکستان کی مخالفت کا راستہ دکھایا۔ یہ صورتحال بھارت کے تخریبی عزائم اور اُس کے مطلوبہ ہداف کیلئے کارآمد ثابت ہوئی، اُس نے پاکستان کو دو لخت کرنے کیلئے تارکین وطن کو جنگ” کا بہانہ بنا کر 3 دسمبر 1971ء کو پاکستان پر حملہ کر دیا، جو 16 دسمبر کے سیاہ دن ”بنگلہ دیش”کے قیام کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا۔
بھارت کو تمام اخلاقی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین سے ماوراء اِس ننگی جارحیت میں روسی تائیدو حمایت اور سلامتی کونسل میں ویٹو کی چھتری حاصل تھی۔ کہتے ہیں کہ دنیا کی طاقتور اور منظم سے منظم فوج بھی عوامی تائید وحمایت کے بغیر بیرونی جارحیت کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کر سکتی، بدقستمی سے پاک افواج کو بیک وقت اندورنی اور بیرونی دونوں محاذوں پر دشمن کا سامنا تھا، لیکن انتہائی نامساعد حالات کے باوجود پاک افواج نے پاکستان دشمنوں کا بھر پور مقابلہ کیا ۔ ایک بھارتی جنرل کے بقول” مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے بہادری کے ناقابل یقین کارنامے دکھائے اور پانچ ماہ تک محاصرے کی حالت میں رہ کراُس نے بے پناہ بہادری سے جنگ لڑی۔”جس کی زندہ مثال میجر جنرل تجمل حسین کی قیادت میں لڑا جانے والا ”ہلی” کا وہ معرکہ ہے جو آج دنیا بھر کی عسکری تاریخ کا درخشندہ باب بن گیا ہے۔