تحریر : اقبال کھوکھر خبر ہے کہ” حکومت نے جوزف فرانسیس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے”ملک بھر کی سیاسی ،سماجی وعوامی تنظیموں،شخصیات نے گزشتہ دنوں دو اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبرکی پرزور مذمت کرتے ہوئے شدید ردعمل کااظہار کیا ہے۔جوزف فرانسیس نے سانحہ یوحناآباد کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ناجائز گرفتاریوں کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس کو حکومتی حلقوں میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا رہا جبکہ عوامی سطح پر ایم اے جوزف فرانسیس کے اس اصولی واخلاقی اقدام کوبھرپورپذیرائی ملی۔اور ملک کی سیاسی،سماجی ،سول سوسائٹی اورہر مکتبہ فکر کے افراد نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اپنے ہرممکن تعاون کا بھی یقین دلایا۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کے چند افراد کویہ سچائی ناگوار گزری حالانکہ بے شمار سماجی وسول حلقوں نے اس سانحے کے بعد کی صورتحال پرہمیشہ مسیحی برادری کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی بھی مذمت کی تھی جو کہ ریکارڈ کاحصہ ہے۔
جوزف فرانسیس نے ہمیشہ قومی سالمیت،معاشرتی استحکام اور وطن سے محبت کی بات کی ہے،انہوں نے دہشت گردی کے خلاف ہماری غیور اور بہادر افواج کے جرات مندانہ ”آپریشن ضرب عضب” کی ہر سطح پر حمایت کی ہے اور آپریشن کے دوران شہید وزخمی ہونے والے ہمارے فوجی جوانوں کی عظمت،دلیری اور شجاعت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں وہ نہ تو مساجد کو معاف کرتے ہیں،نہ امام بارگاہوں کو،نہ چرچز کواور نہ دیگر عبادت گاہوں کو بلکہ عوامی مقامات اور سکیورٹی ادارے بھی ان کے ظلم وبربریت سے محفوظ نہیں۔23مارچ ،14اگست سمیت ہر قومی تہوار میں وہ قومی یکجہتی ،رواداری اور ریاستی محبت میں اپنے گھر اور دفتر میں قومی پرچم لہراتے ہیں۔پرچم کشائی کی تقریب میں سول سوسائٹی سمیت قومی میڈیا بھی موجود ہوتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ بلاتفریق رنگ ونسل ومذہب معاشرے کے مظلوم ومحکوم ومجبور طبقات کی آواز بن جاتے ہیںجو شائد بہتیروں کو پسند نہیں۔
طویل سیاسی وسماجی جدوجہد کے دوران انہوں نے ہر قومی جماعت،ادارے اور شخصیات کے ساتھ روابط رکھے،جمہوری شخصیت ہوتے ہوئے لندن میں ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس میں محترمہ بے نظیربھٹو،میاں محمدنوازشریف کے ہمراہ قومی جماعت”پاکستان کرسچن نیشنل پارٹی” کے چیئرمین کی حیثیت سے تاریخی دستاویز”میثاق جمہوریت”پر دستخط بھی کئے۔ملک کے سماجی شعبے میں ان کی خدمات کی طویل فہرست ہے۔ملک میں سلامتی،امن اور معاشرتی فلاح وبہبود وخوشحالی کے لئے ان کاکردار لائق تحسین رہا۔پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کے یہ بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ”پاکستان ہماری شناخت ہے اور کوئی ہمیں پاکستان سے جدانہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان کے قیام میںقائداعظم کے ساتھ ہمارے بزرگوں کا فیصلہ کن تاریخی کرداررہا ہےہمیں کوئی فتح کرکے یہاں نہیں لایا بلکہ ہم اس کے بانیوں میں شامل ہیں”باشعور حلقے جانتے ہیں کہ ایسی بات صرف پاکستان سے محبت کرنے والا انسان ہی کرسکتا ہے۔
Pakistan Labor
مزدوروں وکاشتکاروں کے معاشی مسائل ہوں،طلباء وطالبات کی تعلیمی ضروریات ہوں،نوجوانوں کے لئے مستقبل پروگرام ہوں،خواتین کے حقوق کی فراہمی کامسئلہ ہو،پسے طبقات کی دادرسی،ظلم وجبر،ناانصافی اورزیادتی کے شکار افرادکی سماجی،اخلاقی وقانونی بحالی کی بات ہوجوزف فرانسیس نے اپنا انسانی، اخلاقی،سماجی وسیاسی ذمہ دارانہ کرداراداکیا جس کے باعث سول سوسائٹی،قومی وبین الاقوامی ادارے وشخصیات ان پراعتماد کرتے ہیں۔ بات سمجھ سے بالاتر معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص نے کبھی اپنی ذات کے ساتھ بھی بے احتسابی نہ کی ہو اس پرالزام ہو کہ اس نے کوئی غیرقانونی کام کیا ہے جبکہ دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی برسی ہو،سول سوسائٹی کے حقوق کے لئے پرامن احتجاجی مظاہرہ ہو، ملک میں امن وسلامتی کے قیام کے لئے ریلی ہو،دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے کردار کی حوصلہ افزائی ہو،زلزلہ زدگان وسیلاب متاثرین کی بحالی ومددہو،کسی بھی فرد کے ساتھ ناانصافی ،زیادتی ہو،بنیادی حقوق کی فراہمی وبحالی درکار ہو،قومی ایشو ہو،ہر معاملے میں ان کاکردارذمہ داررہا۔ان کی زندگی پر مبنی لکھی گئی کتاب”حقیقی قومی ہیرو”ان ساری باتوں کی تاریخی سچائی بیان کرتی ہے۔جوزف فرانسیس نے صرف اقلیتوں کے لئے آواز بلند نہیں کی بلکہ ان کی زندگی میں ہزاروں ایسے مسلم بہن بھائی بھی ہیں جن کی اخلاقی،سماجی اورقانونی مددکی ان کے حقوق کے لئے جوزف فرانسیس نے جدوجہد کی۔
حکومت کو تو ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے سماجی شعبے میں اپنی مددآپ کے تحت ملک میں خوشحال معاشرے اور مضبوط پاکستان کے لئے اچھے ذمہ دارشہری ہونے کا فرض نبھایا ہے اس کے برعکس انہیں دبانے،ہراساں اور مقدمات میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔وقت نے بھی ثابت کیا کہ جوزف فرانسیس ایک سچے مسیحی،مخلص پاکستانی اورہمدردانسان ہیں۔جو شخص کسی کو درد میں دیکھ کر سونہ سکے اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے قبل سوچنا چاہیے کہ یہ نہ تو انسانی طور پراور نہ ہی ریاستی شہری کے طور پر بہتر عمل ہوگا۔ویسے بھی جو جرم ہوا ہی نہ ہواس کی سزا کے لئے کسی کو نامزد کرنا انتہائی غیرقانونی عمل ہے۔جمہوری دور میں سیاسی جماعتیں حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہیں ۔یہ سیاسی لوگوں کاعوامی حق ہے اور جمہوریت کاحسن بھی ۔خود موجودہ حکمران متعددادوار میں حکومتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔اصل میں بات وہی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں ومظلوم طبقات کی بات کرنا ہی جوزف فرانسیس کاجرم ہے۔
میاں نوازشریف کولندن میں اپنے ساتھ”میثاق جمہوریت” پر دستخط کرنے والے اس جوزف فرانسیس کی قربانیوں کویادرکھنے کی ضرورت ہے کہ اسی جوزف فرانسیس نے پاکستان میںاس وقت کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی مراعاتی پیش کش کو ٹھکراکرلندن میں بلائی جانے ولیAPCمیں شرکت کی تھی کیونکہ وہ آمرانہ نظام کے خلاف ایک اصولی سیاست کے قائل رہے۔تمام مقتدرحلقوں کو اس صورتحال پرغورکرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی محب وطن شہری ،انسان دوست،ہمدرد شخص مظلوم ومجبور کی آواز بلندکرتاہے تواسے سراہے جانے کے بجائے اس کے خلاف کارروائی کی کوشش سراسرناانصافی ہے۔مہذب معاشرہ اورزندہ قومیں ایسانہیں کرتیں لہٰذا ایساکوئی بھی اقدام اٹھانے سے گریز کیا جاناچاہیے۔