تحریر : محمد اکرم اعوان راتوں رات شہرت، دُنیا وی آسائشوں اور ہر جائز و ناجائز ذریعہء سے دولت حاصل کرنے کی خواہش نے ہمیں ایک دوسرے کی چاہت اور محبت سے دور کردیا ہے۔ ہر انسان اپنے مستقبل سے مایوس، گردوپیش کے ماحول سے خوفزدہ اور حالات کو اپنے مخالف سمجھتا ہے۔ آج ہم میں صبر اور برداشت بالکل ختم ہو گئی، ہر شخص چا ہے وہ غریب ہو، متوسط یا مالدار، اطمینان اور سکون کے بجائے گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار ہے۔ سب پریشان ہیں اورکوئی بھی محفوظ نہیں۔ جو نفرتیں آج ہمارے درمیان پیدا ہو چُکی ہیں اور جن نفرتوں کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے،آخر یہ نفرتیں اور عدواتیں کہاں سے در آئیں؟ اسلام میں تو کسی نفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام تو سراپا محبت، اخوت اور بھائی چارے کا داعی ہے۔ اسلام ایک ایسا معاشرہ کی تشکیل کا ضامن ہے جس میں ہر انسان اپنے لئے جینے کی بجائے دوسروں کے لئے جینے کو باعث فخر سمجھتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے اس ملک اور عوام کے لئے بہتری اور خوشحالی لانے کے باب میں ہمیشہ بد ترین غفلت برتی،اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر نفرتیں پھیلائیں اور حزب اختلاف نے اقتدار میں آنے کے لئے عوام کے درمیان نفرتوں کے بیج بوئے۔یہ لوگ صرف جمہوریت اور عوامی حقوق کے خوبصورت بھاشن دے کر عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔اقتدارمیں اور اقتدار کے باہر ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا مسئلہ جمہوریت نہیں بلکہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔انہیں توصرف اپنے اقتدار اور طاقت کے حصول سے غرض ہے۔ یہ لوگ حکومت میں آنے کے بعدقومی مفاد کواپنی ذات اور برادری کے مفادپرقربان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔حکومت سے باہر ہوں توپاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانااورقومی مفادان کا اولین مقصد اور ترجیح ہوتی ہے۔ مگراقتدار ملنے کے بعدکیسا اسلام اورکیسی فلاحی ریاست؟ کہیں بھی معاشرے میں سدھار اور اخلاقیات کی محنت اور فکر ہوتی نظر نہیں آتی۔
ہمارے دینی اور صاحب رائے لوگوں نے معاشرے کی تربیت،اخلاقیات کے درس،اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم، شفقت ورحم اور مہرومحبت کی دل نواز صداؤں سے دلوں کو پراُمیدبنانے کے بجائے صرف دو وقت کی روٹی کی خاطردوسرے فرقہ کے خلاف زہر اُگلااوردین ِ اسلام کومشکل بنا کر پیش کیا۔نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت موسی اشعری کو اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے بھیجا تو رُخصت کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی”دین الٰہی کو آسان کرکے پیش کرنا، سخت بنا کرنہیں۔ لوگوں کو خوشخبری سنانا، نفرت نہ دلانا”(بخاری)۔مسجد سے لیکر بازارتک اور انفرادی واجتماعی طور پر ہر جگہ اور ہرمقام پر خامیوں، برائیوں، اختلافات کا تذکرہ اور درس دیا جارہاہے ایسے حالات میں امن، سکون،راحت کا خیال بھی کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی نفرت اور مایوسی پھیلانے کو اپنا اولین فریضہ جانا۔سوشل میڈیاپر بھی لوگوں کی جانب سے ایک دوسرے کے درمیان غصہ اورنفرت کے جذبات اُبھارنے کے لئے اشتعال انگیز مواد شیئرکیا جاتا ہے ۔ہر کوئی بساعت بھر ریت اورگرد اُڑاے چلاجارہاہے۔ اس گھٹن اورگردآلودماحول میں بھرپورزندگی گزارنا توبہت دُور کی بات ،یہاں توسانس تک بحال رکھنادُشوارہوتا جارہاہے۔ کوئی معلم، مقرر، لکھاری،دانشور، سکول، کالج،یونیورسٹی جہاں عام انسان کے کردار،اخلاقیات اور تربیت کے ذریعہ معاشرہ میں برداشت، اخوت اور بھائی چارہ پیدا ہونے کے امکانات ہوں، ایساپلیٹ فارم کہیں دیکھائی نہیں دیتا۔ تعلیم تجارت بن کر رہ گئی ہے اور تجارتی تعلیم معاشرتی اور سماجی وحشتوں کو کیونکر اور کیسے دور کرے گی۔
Allah
ہماری اس اجتماعی غفلت اور لا پرواہی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ہمارے درمیان محبتوں کی بجائے عداوتیں پیدا ہو گئیں۔ رور بروز نفرتوں کے پہاڑ ہمارے درمیان بلند ہوتے جارہے ہیں۔ کیا یہ حالات یکدم آسمان سے اُتر آئے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ہم خود کو ان حالات سے بری الذمہ ہرگز قرار نہیں دے سکتے۔ہم بحیثیت قوم اس منافقت اورنفرت بھرے ماحول کے ذمہ دار ہیں۔ہم اپنی اس مسلسل غفلت اور خودغرضی کے باعث اِن حالات کی سنگینی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ہم نے اس باب میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ہم میں صبر اوربرداشت خطرناک حد تک ختم ہوتی جارہی ہے۔ہمارے دل سیاہ اور سخت ہوچکے، ہمارا معاشرہ بدامنی اور بے رحمی کی انتہا کو پہنچ چُکا ہے۔ہم نے خود کو دُنیا کے حصول اور دُنیاوی فکر میں اس قدر جکڑ لیا ،کہ ہم اللہ کی رضا سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ہمیں آج اللہ کی رضا سے زیادہ آئی ۔ایم ۔ایف کو راضی کرنے کی فکرد امن گیر ہے، اللہ کے خوف سے زیادہ ہمیں امریکہ کا ڈر، کھائے جا رہا ہے۔
آج ہماری اجتماعی حالت یہ ہے کہ ہرانسان دوسرے سے خائف، بدظن اورہم ایک دوسرے کے بد ترین دُشمن بن گئے ہیں۔ ہرتکلیف ،پریشانی اور ہمیں پہنچے والی ہر مصیبت کا الزام دوسروں پرلگانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے اندر کی مایوسی ،گھبراہٹ اور بے چینی کا سبب ہمارا طرز ِ زندگی، ہمارے اعمال،اللہ کی ذات پاک پر کامل یقین نہ ہونا اور احکامات ِ الٰہی سے روگردانی ہے۔ہمیں اپنے یقین کا رُخ دُنیا کی ہر طاقت سے ہٹا کرصرف ایک اللہ رب العزت کی طرف بدلنا ہوگا۔اللہ ایک ہے ۔وہی قابل ِ عبادت ہے ۔اُسی کی سلطنت اور بادشاہی آسمانوں اور زمین میں ہے ۔اللہ کی رضاکو سب سے اولین ترجیح بنا ناہوگا۔اللہ پر کامل یقین سے ہی انسان میں اُمیدکا احساس بیدار ہوتا ہے،پھرانسان اپنے گردوپیش کے ماحول اور حالات کواپنا مخالف نہیں سمجھتا بلکہ اس کے اندر دوسروں کے بارے میں حسن ظن پیدا ہوتا ہے اوردوسروں کو اپنا دُشمن اور مخالف سمجھنے کے بجائے دوست سمجھنا شروع کردیتا ہے ۔ہمیں ایسا ہی کچھ کرنا ہوگا۔ بیشک اللہ کی مدد ہرکلمہ گو کے ساتھ ہے۔دین ِاسلام سب سے اچھا اور سچا دین ہے۔اِسلام انسان کے روزمرہ کے انفرادی اوراجتماعی معاملات میں براہ ِ راست راہنمائی کرتا ہے۔عدل وانصاف،احسان اور عزیزوں سے محبت کا سبق دیاہے۔نفاق اور مفاد پرستی سے روکتاہے۔ بس دین ِ اسلام کو کتاب، لائبریری اورتقریوں سے اپنی زندگیوں میں لانے کی دیرہے۔زندگی اتنی بھی چھوٹی نہیں کہ انسان کو اچھے کام کرنے کا موقع نہ ملے”اگرآپ تمام تر زندگی میں انسان کی اجتماعی بہبود کو صرف ایک قدم آگے بڑھانے میں بھی کامیاب ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنی پیدائش کا حق ادا کر دیا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ