انڈونیشیا (اصل میڈیا ڈیسک) انڈونیشیا کے سخت گیر عالم ابو بکر بشیر پر 2002 کے بالی بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان دھماکوں میں دو سو سے زائد افراد ہلک ہوئے تھے۔
انڈونیشیا کی سخت گیر مذہبی شخصیت ابو بکر بشیر کو جمعہ آٹھ جنوری کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ان پر 2002 میں ہلاکت خیز بالی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام تھا۔ 82 سالہ ابو بکر کو دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں انتہا پسند ترین شخصیت مانا جاتا ہے۔
وہ جہادی تنظیم ‘جماعہ اسلامیہ’ جس کے القائدہ جیسی تنظیم سے بھی روابط ہیں، کی ایک اہم شخصیت ہیں جو سن2011 سے ہی جیل میں 15 برس قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان کو ملک کے صوبے آچے میں شدت پسندوں کے تربیتی کیمپوں کی فنڈنگ میں مدد کے لیے پندرہ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی سزا کی مدت میں مسلسل کمی ہونے کے سبب ان کی سزا کی معیاد اب پوری طرح سے ختم ہوچکی تھی۔ ابو بکر بشیر گنجائش سے زیادہ قیدیوں سے بھری بدنام زمانہ جیل میں قید تھے۔ان کے وکیل نے ان کی عمر کے مدنظر جیل میں کورونا وائرس کی وبا سے متاثر ہونے کے خطرات کے حوالے سے ان کی جلد رہائی کی اپیل کی تھی۔
سن 2002 میں بالی کے جزیرے پر ہونے والے بم دھماکوں میں 88 آسٹریلوی شہریوں سمیت کل 202 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انڈونیشیا کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا بدترین دہشت گردانہ حملہ تھا جس کے لیے ‘جماعہ اسلامیہ’ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
ان حملوں کے لیے پہلے ذیلی عدالت نے ابو بکر بشیر کو جیل کی سزا سنائی تھی تاہم بعد میں انہوں نے جب اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تو انہیں اس الزام سے بری کر دیا گیا۔ گرچہ انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ اسامہ بن لادن کے معترف ہیں تاہم انہوں نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے بارہا انکار کیا۔ 2014 میں بشیر نے شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے بھی وفاداری کا عہد کیا تھا۔
انڈونیشیا کے حکام نے انسانی بنیادوں پر دو برس پہلے ہی بشیر کو رہا کرنے کے اپنے منصوبے کا اظہار کیا تھا، تاہم اس کے خلاف آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں آوازیں اٹھیں جس کی وجہ سے انہیں جیل میں ہی رکھا گیا۔
اس ہفتے جب اس بات کا اعلان ہوا کہ آنے والے جمعے کو ابو بکر بشیر کو رہا کر دیا جائیگا تو آسٹریلیا کے وزیر خارجہ میریز پیئنے نے ایک بیان میں کہا کہ انڈونیشیاکو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت کہ بشیر مزید تشدد نہ برپا کرسکیں۔
بالی دھماکوں کے بعد ہی انڈونیشیا نے امریکا اور آسٹریلیا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں اپنا تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بہت سے شدت پسندوں کو یا تو ہلاک کر دیا گیا یا پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور اس طرح جماعہ اسلامیہ بھی کافی کمزور پڑ گئی۔
جکارتہ کے میرئیٹ ہوٹل میں بھی 2003 کے کار بم دھماکے کے لیے اسی تنظیم پر الزام عائد کیا گیا تھا جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2004 میں آسٹریلیا کے سفارتخانے کے باہر ہونے والے خود کش حملے کے لیے بھی اسی تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔جماعہ اسلامیہ کے ایک لیڈر کو گزشتہ ماہ ہی گرفتار کیا گیا جن پر بالی حملوں کے لیے بم تیار کرنے میں رول ادا کرنے کا الزام ہے۔