تحریر: عبدالحنان انڈیا اس وقت پاکستان پر 62% ڈیم تعمیر کرچکا ہے جس کے زریعے وہ جب چاہے پاکستان کو اس کے پانی کے حصے سے محروم کرسکتا ہے حالانکہ ڈیموں کی تعمیر ناصرف ناجائز ہے بلکہ سندھ طاس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے پاک بھارت آبی تنازع شروع دن سے ہی دونوں ممالک کے لئے بے حد اہم رہا ہے بھارت کی شرانگیز چالوں سے کی وجہ سے یہ مسئلہ پاکستان کے لئے کافی پریشانی کا باعث رہا ہے 1947ء میں جب پاک بھارت کی تقسیم ہوئی تواس وقت برصغیر میں 6 دریاء تھے انڈس ،جہلم ،چنا ب،راوی ،ستلج ،بیاس جس میں سے تین دریاء پاکستان کے حصے میں آئے انڈس ، جہلم، چناب، لیکن 1955 ء میں بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے دریائے نیلم ، جہلم، چناب پر ڈیم بنانے شروع کئے تو پاکستان کو خطرہ لاحق ہواجس کی بناء پر اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے جایا گیااقوام متحدہ کی کوششوں سے پاک بھارت آبی مسئلے پر معاہدہ ہوا جو سندھ طاس معاہدے کے نام سے مشہور ہے جس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر دونوں ممالک میں سے اگر کوئی چاہے تواپنی ضرورت کے لئے پانی استعمال کرسکتا ہے اور پانی محفوظ کرنے کے لئے دریائوں پر ڈیم تعمیر کرسکتا ہے لیکن اس شرط کی پاکستان کو تب سمجھ آئی جب بھارت اس پر عمل کرچکا تھا اور یہ دشمن کی مکاری ہے کشمیرسے آنے والے تمام دریائوں کا رخ پاکستان کی طرف ہے اس شرط کے بعد بھارت نے تینوں دریائوں پر لگاتار ڈیم بنانے شروع کردیئے اور آج اس پر 65 سے زیادہ ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں اور پاکستان کی بدقسمتی کہ اب تک پاکستان میں 2 ہی ڈیم تعمیر ہوئے ہیں۔
منگلاڈیم اور تربیلا ڈیم اور ان دوڈیموں کی بعد پاکستان کے حکومت نے نئے ڈیم کو بنانے کی طرف توجہ دی اور ناہی ان ڈیموں کی صورتحال کو بہتر بنایا اگر کوئی بنا نے کی طرف توجہ دی تو وہ کرپشن کے سیلاب میں بہہ کرناجانے کہاں چلا گیا ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ اوسط 147ملین ایکڑفیٹ کے حساب سے پانی ریکارڈ کیا گیا 5سے 10ملین ایکڑفیٹ مختلف ندی نالوں سے آتا ہے لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا پاکستان کے اکثرعلاقے بنجر یا صحراء ہے جبکہ اس مقابلے میں اپنے پانی محفوظ رکھنے کا کافی چیک اینڈ بیلنس رکھا ہے اس کے مقابلے میں بھارت کا سالانہ 750ملین ایکڑفیٹ پانی ریکارڈ کیا گیا ہے۔بھارت نے آبی جارحیت کی ابتداشروع ہی سے کردی لیکن پہلے پاکستان کی اپنی کوتا ہیوں کا ذکر لازمی ہے۔ پاکستان نے لنک نہری نظام کا وسیع جال پھیلادیا لیکن اسکی دیکھ بھال نہ کی اور مٹی بھرنے سے یہ لنک نہری نظام ناکارہ ہو تا گیا۔ اس غفلت کے نتیجے میں ہر سال پہاڑوں سے برف پگھلنے اور مون سون کی بارشوں سے بہنے والا پانی نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ سیلاب کی صورت میں تباہی مچاتا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے متعدد متنازعہ ڈیم تعمیر کرلئے جن کے ذریعے وہ پاکستان کو اسکا جائز حق فراہم نہیں کرتا۔بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سابق سندھ طاس کمشنر بھارت کے حامی تھے اور اسکی آبی جار حیت کو روکنے کے اقدامات کرنے کے بجائے وہ خاموش رہے۔
Kalabagh Dam
یہ بھی خبریں ہیں کہ بھارت نے پاکستان کے کچھ سیاست دانوں کو قائل کیا کہ وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بے جا مخالفت کریں تاکہ یہ عظیم منصوبہ متنازعہ بن جائے اور کھٹائی میں پڑ جائے۔ ان عیارانہ چالوں کے باعث اب بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ جب چاہے پاکستان کا پانی روک کرقحط سالی بپا کردے اور جب چاہے زیادہ پانی کھول کر سیلاب سے تباہی مچادے۔ سابق چیئر مین واپڈ انے مقامی اخباروں میں کالا باغ ڈیم کی حمایت میں مضامین کا سلسلہ تحریر کیا جس کی پاواش میں انہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔بھارت سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ اسکا میگا منصوبہ یہ ہے کہ 155 پن بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹ کشمیر کے دریاں پہ تعمیر کئے جائیں جن سے متعلق ڈیزائن اورد وسری معلومات کا پاکستان سے اشتراک وہ نہیں کررہا۔ 1970 کی دہائی سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پن بجلی کے منصوبوں پہ عمل درآمد کررہا ہے جن میں سے33 منصوبے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ فی الوقت سب سے متنازعہ منصوبہ330 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا کشن گنگا دریا پہ ڈیم ہے۔ یہی دریا جب آزاد جموں کشمیر میں داخل ہوتا ہے تو اسکا نام نیلم دریا ہے۔ اور یہ دریا ے سندھ کی ایک شاخ ہے۔
اسکی تعمیر 2007 میں شروع ہوئی اور تقریبا مکمل ہوچکی ہے۔ اس منصوبے کے تحت 24 کلومیٹر طویل سرنگ کے ذریعہ پانی کے اخراج کو منتقل کرکے وولر جھیل میں داخل کیا جائیگا جہاں سے بجلی پیدا کرنے کے بعد جہلم دریا سے ملایا جائے گایوں 213 کلومیٹر لمبے نیلم دریا کو اس پانی سے محروم رکھا جائیگا جسکے باعث پاکستان کا نیلم، جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پر وجیکٹ ناقص ہوجائیگا۔ اور دوسری طرف نریندرمودی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے 25 نومبر کو اس نے پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ پاکستان کو تینوں دریائوں کا پانی استعمال نہیں کرنے دیں گئے اور ساتھ ہی اس نے دریائے چناب کا پانی روک لیاجس سے پاکستان کی املاک اور فصلوں شدید نقصان ہورہا ہے نریندر مودی کوخود سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیأبول رہا ہوں اس وقت نریندرمودی اشوک دیول کی کہی باتیں میڈیا کے سامنے کہ رہا ہے اور یہ ایک مکمل سازش ہے نریندرمودی کوسمجھوتہ ایکسپریس سے لے کرپٹھان کوٹ تک کلبھوشن سے لے کراڑی حملے تک، بھارت کی نیکوکاری کے جتنے بھی ثبوت ہیں، ببانگ دہل اقوام عالم کودکھاناہوں گے ۔ایسابھی دیکھنے میں آیاہے کہ کشمیرسمیت پانی کے مسئلہ پرپاکستان سے انصاف نہیں برتاگیاتاہم پاکستانی سفارت کاری کوبھی بھارتی آبی جارحیت کے خلاف اٹھناہوگا۔ماہرین کے مطابق مستقبل میں دنیامیں ہونے والی جنگوں کی بنیادپانی ہوگا اوراس جنگ میں پاک بھارت نہیں بلکہ عالمی امن کو بھی خطرہ ہو گا۔
لہذا اقوام متحدہ کے ذمہ دارممالک کا فرض ہے کہ بھارت کوخطے میں اس بدفعلی سے روک کر اس خطے کے اندر تخریب کاری کی اس لکیر کومزیدگہراہونے سے بچائے۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کاپانی بندکرناایک حملہ کے مترادف ہے جو پاکستان کوزراعت، صنعت ،انرجی سمیت متعدد شعبوں میں کمزورترکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔آبی ماہرین کے مطابق اگر بھارت اسی طریق ے سے ڈیم بناتارہا تو ان کامقصد توانائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں انسانوں کامعاشی قتل بھی ہے تو آنے والے پانچ برس میں ممکن ہے کہ پاکستان کوپانی کی دستیابی آٹھ سوکیوبک میٹرتک گر جائے۔ یہ ہیں بھارت کے وہ مکروہ اور گھٹیا عزائم جن کے ساتھ وہ پاکستان کے خلاف زہربھی اگلتاہے۔شایداستعمارکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس کے پاس ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جس کی وجہ سے کھلی آنکھیں بھی کشمیرسے بے اعتنائی برت رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ مسلمانوں کاقاتل دبئی میں کھڑے ہوکرپاکستان کوللکارتاہے اورپھر متحدہ عرب عمارات سے 75ارب ڈالرکی سرمایہ کاری بھی لے اڑتاہے ۔یہ ہے وہ عالمی منظرنامہ جس میں پاکستان کو اپنی جنگ سفارت کاری کے میدان میں لڑنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بھارت کی آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ اس کے مکروہ پراپیگنڈے کابھی پوری قوت کے ساتھ جواب دیا جاسکے۔