صنعت پر سیلز ٹیکس، قیمتوں کے تعین کی غیر موثر پالیسی اور ادویات کی مارکیٹ کی سائنسی خطوط پر ریگولیشن نہ ہونے سے یہ صنعت تباہی کا شکار ہے

کراچی : مقامی دوا ساز اداروں کا کہنا ہے کہ ادویہ ساز صنعت پر سیلز ٹیکس، قیمتوں کے تعین کی غیر موثر پالیسی اور ادویات کی مارکیٹ کی سائنسی خطوط پر ریگولیشن نہ ہونے سے یہ صنعت تباہی کا شکار ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، مہنگاہی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث متعدد ضروری ادویات کی پاکستان میں تیاری رک گئی ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان ( ڈریپ)کی جانب سے مقرر کی گئی قیمتوں پر ادویات کی تیاری ناممکن ہوگئی ہے۔ یہ بات پاکستان فارما سوٹیکل منیو فیکچرز اسیوسی ایشن ( پی پی ایم اے ) کے چیرمین جاوید اکھائی سابق چیرمین داکٹر قیصر وحید اور زاہد سعید نے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کے دوران کہی۔

پریس کانفرنس کے دوران پی پی ایم اے کے عہد یداران نے مقامی دوا ساز صنعت کو درپیش مسائل اور اس کے حل کی تجاویز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ پی پی ایم اے کے چیرمین جاوید اکھائی نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر حکومت ہمیں سہولیات فراہم کرے اور ہمیں مسائل سے چھٹکارا دلادے تو ادویات کی برآمدات سے ایک ارب ڈالر کا ہدف پورا کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈر یپ نے اپنی منفی پالیسیوں اور غیر ہمدردانہ رویئے کے باعث مقامی ادویات ساز اداروں کو دیوار سے لگادیا ہے۔ پاکستان کی فارما انڈسٹری میں ملکی معیشت کو ترقی دینے اور پڑھے لکھے افراد کو بہتر روزگار دینے اور دیگر متعلقہ انڈسٹری کو فروغ دینے کی بے حد صلاحیت ہے۔

اور اس وقت فارما انڈسٹری 200 ملین ڈالر کی ادویات برآمد کررہی ہے اور 2016 تک ایک ارب ڈالر تک اور 2020 تک 2 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف مقرر کیا گیا ہے مگر اسکے لئے انڈسٹری کو حکومتی اداروں کی مدد درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ادویات کی برآمدات میں ساتویں نمبر پر ہے۔ مگر ڈریپ کی منفی پالیسیوں اور غیر پیشہ روانہ سرگرمیوں کے باعث 2012اور 2013 ہی برآمدات 17 فیصد کم ہوئی ہیں۔ پی پی ایم اے کے سابق چیرمین ڈاکٹر قیصر وحید نے کہا کہ چار بین الاقوامی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے کاروبار بند کردیا ہے جبکہ دیگر کمپنیاںبھی مسائل اور عدم تعاون کے باعث اپنے فارما پلانٹیس کو بند کرنے پر غور کررہی ہیں۔

انہوں نے تبایا کہ گذشتہ بارہ سال میں ڈاکٹروں، ماہرین، سرجنز، تشخیصی لیبارٹریز، اسپتالوں نے اپنی خدمات پر 300 فیصد اضافہ کردیا ہے اور ادویات کی قیمتوں کو 2001 میں 12 فیصد اضافے کی اجازت بورڈ نے دی تھی۔ جس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ 28 نمایاں فارما کمپنیوں کی 61 فیصد ادویات اب بھی انڈیا کے مقابلے میں پاکستان میں سستی ہیں۔

سابق چیرمیں پی پی ایم اے زاہد سعید نے کہا گذشتہ ایک سال میں ڈریپ نے اپنی فیس میں 300 فیصد اضافہ کیا اور فارما انڈسٹری کو اسکے بھاری اخراجات اٹھانے پڑرہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈریپ کی رجسٹریشن پالیسی میں ترمیم کرے۔ اور قوانین کو آسان بنائے اور اس سلسلے میں بھارت، بنگلہ دیش کی طرز پرآسان اور بہتر قوانین رائج کئے جائیں اور ڈریپ کی کم از کم مداخلت کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت معیشت اور انڈسٹری کو ترقی دینے کے لئے اداروں کو فعال اور سرمایہ کار دوست پالیسی کا نفاذ کرے۔