حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے ” کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور جبر کی نہیں” ۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ ناحق قتل کئے گئے ہوں اور قاتل بچ جائیں ۔خدا کے ہاں دیر تو ہے اندھیر نہیں قاتل جتنے بھی طاقت ور ہوں آخر ایک دن بے نقاب ضرور ہوتے ہیں اور نشان عبرت بنتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ قاتل اور ظالم کا انجام ہمیں سمجھانے کیلئے اور عبرت حاصل کرنے کیلئے اسی دنیا میں ہی دکھا دیتا ہے آخرت میں تو اس کا جو انجام ہوگا وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
16جون 2014ء بروز پیر رات تقریباً 1:30بجے سینکڑوں پولیس اہلکار اور پولیس کی وردی میں بدمعاش( جن کا ذکر جسٹس باقر نجفی نے بھی اپنی رپورٹ میں بھی کیا ) بھاری مشینری کے ہمراہ بغیر اطلاع منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے ارد گرد موجود سیکورٹی بیرئیرز کو ہٹانے کے نام پر دھاوا بول دیامرکز میں موجود سٹاف ممبران اور طلباء پر لاٹھی چارج کرنا شروع کردیا یہ نہتے افراد رات بھر پولیس کی طرف سے ہونے والی لاٹھی چارج کا اپنی استطاعت کے مطابق دفاع کرتے رہے۔
17جون کا سورج طلوع ہوچکا تھا مرکزی سیکرٹریٹ پر اسی ریاستی دہشت گردی کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی لاہور اور گردو نواح میں عوام الناس ، سول سوسائٹی کے افراد اور کارکنان بھی مرکز پہنچانا شروع ہوگئے تھے پولیس ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی نفری میں اضافہ کرتی چلی جارہی تھی کارکنوں نے بھر پور دفاع کرتے ہوئے پولیس کو کئی گھنٹوں رکاوٹیں ہٹانے سے روکے رکھا اور پولیس کی طرف سے ہونے والے ظلم وستم کو برداشت کرتے رہے بالآخر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج ، ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ ساتھ سیدھی گولیاں بھی برسانا شروع کردیں لاشیں گرنا شروع ہوئیں گولیوں سے چھلنی زخمی سڑکوں پر تڑپتے رہے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت انہیں ہسپتال پہچانا شروع کردیا 15گھنٹے بعد پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر قبضہ کرلیا۔
سیکرٹریٹ پر قبضہ کے بعد پولیس ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کی طرف بڑھی اور وہاں موجود بیرئیرز کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ گولیوں کی بوچھاڑ سے اپنے راستے میں آنیوالے لوگوں کو بھی قتل کرنا شروع کردیا اس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے رہائش گاہ کے اندر گھسنے کی مکروہ کوشش بھی کی مگر وہاں موجود خواتین کارکنان ان کے آگے ڈھال بن گئیں پولیس نے خواتین کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان پر بھی فائرنگ کردی اور وہاں موجود خواتین میں سے دو کو شہید اور کئی کو زخمی کردیا گیا ۔ اس تصادم کے نتیجے میں مردو خواتین سمیت 7افراد موقع پرجبکہ بعد میں مزید 7افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ۔اس کے علاوہ 100کے قریب کارکنان زخمی بھی ہوگئے۔
الیکٹرانک میڈیا نے اس پورے واقعہ اور آپریشن کی مکمل کارروائی عوام تک پہنچاتے ہوئے ان حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کو قوم کے سامنے عیاں کردیا اس واقعہ کی سفاکیت ، درندگی، ظلم ، بربریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر کی سیاسی ، مذہبی ، علاقائی ، سماجی تنظیمات نے اسے ایک المناک واقعہ قرار دیتے ہوئے دو ٹوک انداز میں موجودہ حکمرانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نے بڑے معصومانہ انداز میں اس واقعہ سے بے خبری کا اظہار کیا کہ مجھے اس قسم کے کسی آپریشن کی اطلاع نہ تھی اور نہ میرے حکم پرگولیاں چلائی گئیں ، یہ کیسے ممکن ہے کہ 15گھنٹے سے ایک سفاکانہ واقعہ الیکٹراک میڈیا کے ذریعے دکھایا گیا ہو اور خود کو خادم اعلیٰ کہنے والے وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف فرماتے ہیں کہ میں اس تمام واقعے سے بے خبر ہوں مجھے تو صبح 9بجے ٹی وی پر پتا چلا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خادم اعلیٰ صاحب کیا لسی پی کر سو رہے تھے کہ انہیں اپنے ہی محلے ماڈل ٹائون میں ہونے والے اتنے بڑے واقعہ کا علم تک نہ ہوا ۔اور بھی کچھ نہ ثابت ہو تو ریاستی امور میں اتنی بڑی غفلت کی سزا بھی ہوسکتی تھی مگر کہاں ہوتی ،کون دیتا ،سارے ادارے ان کے گھر کی لونڈی تھے وہ کیسے کوئی ایکشن لیتے ۔وہ دن اور آج کا دن شہباز شریف ،نواز شریف ، مریم ، حمزہ شہباز ، رانا ثناء اللہ سمیت کسی بھی ن لیگی رہنما نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ آنے کی زحمت نہ کی اور نہ ہی کوئی آج تک مزمتی بیان دیا۔ ایساکرتے ہی کیوں کیونکہ خود ہی قتل کا منصوبہ بنانے والے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے ورکرز نے 2018ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو مکمل سپورٹ کیا خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ ن کی کمر توڑنے میں پاکستان عوامی تحریک نے بھر پور کردار ادا کیا الیکشن کمپیئن میں عمران خان نے سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کو انصاف دلوانے کا وعدہ کئی مرتبہ کیا مگر حکومت میں آنے پر عمران خان ناصرف سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کو بھول گئے بلکہ قتل کے اس منصوبہ میں شامل پولیس افسران کو ترقیاں دے کر سانحہ ماڈل ٹائون کے شہدا ء کے لواحقین کے زخموں پر خوب نمک چھڑکا۔
میں الیکٹرانک میڈیا کو سلام پیش کرتا ہوں کہ سوائے چند ایک ٹی وی چینل کے تقریباً ہر ٹی وی کے ہر اینکر زنے ان مظلوموں کی آواز اٹھا کر حق کا ساتھ دینے کا حق ادا کردیا ۔ان میں چند ایک قابل ذکر ہیں عارف حمید بھٹی ، ارشاد عارف ، اوریا مقبول جان ، ارشد شریف ، صابر شاکر ،غلام حسین ، حسن نثار ، وسیم بادامی اور بہت سے اینکرز شامل میں جو آج تک ان مظلوموں کی آواز اٹھا رہے ہیں مگر کچھ” صافی ””خان ” اور ”میر”اینکرز ایسے بھی ہیں جومعلوم نہیں کس مصلحت اور مجبوری کا شکار ہیں جن کی زباں پر آج تک سانحہ ماڈل ٹائون کا نام ہی نہیں آیا۔اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہدایت دے ظالم نہیں مظلوم کا ساتھ دینے اور سچ بولنے کی توفیق دے ۔ اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں نے جو ظلم کی داستان رقم کی وہ ذلیل و خوار تو ہو ہی رہے ہیں ۔کہاں وہ تحت و تاج پوری رعایہ غلام ان کے حکم کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مارتی تھی ۔اب وہ ہر روز عدالتوں کے دھکے اور جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں اور ان شاء اللہ جلد اپنے اصل انجام کو پہنچیںگے کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔