پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے 9 نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 6 جنوری کو سونامی سندھ اور 24 جنوری کو راولپنڈی پہنچے گا، پاکستان میں کفر کا نظام ہے، مہنگائی اور امریکی غلامی کے خلاف جہاد کریں گے، ملک کو غلامی سے آزاد کریں گے، خیبر پختونخوا میں بجلی کا کنٹرول میرے ہاتھ میں دے دیں، چوری ختم کرکے دکھائوں گا،11 مئی کو لاہور کا میچ فکس تھا، ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے حکومت جی ایس ٹی ختم اور نوٹ چھاپنا بند کرے، سیاستدان، حکمران اور صنعتکار اپنا پیسہ بیرون ملک سے واپس لائیں مہنگائی مافیا پر ہاتھ ڈالنا ہو گا، ہم چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز کو پبلک پارکس یا ہوٹلز میں تبدیل کرنے کا بل لا رہے ہیں، نواز شریف ہمارے ساتھ مل کر ڈرون حملوں کے خلاف اسٹینڈ لیں، تحریک انصاف امریکا کے ساتھ جنگ نہیں چاہتی ہم نے نیٹو سپلائی دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں امن کیلئے بند کی، ملک کے 30 لاکھ دولت مند افراد ٹیکس نہیں دیتے، حکومت ان سے ٹیکس لے کر سالانہ 300 ارب روپے جمع کر سکتی ہے، جب تک کرپشن اور دہشت گردی ختم نہیں ہو گی ملک معاشی طور پر مضبوط، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہو گا۔
پارٹی کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی دو بھر ہو گئی ہے۔ اس لئے اس صورتحال کے خلاف احتجاج کے لئے اس ریلی کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس احتجاجی ریلی کی اسی شدت سے مخالفت کی جاری ہے۔ عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ احتجاج اور ریلیاں سیاسی پارٹیوں اور عوام کا جمہوری حق ہے۔ اسی کا اظہار کرنے کے لئے وہ اپنی ہمنوا اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ میدان میں نکلیں ہیں۔ اس سے قبل تحریک انصاف کی سرکردگی میں خیبر پختونخوا میں احتجاجی دھرنے دئیے جا رہے ہیں۔ ان دھرنوں کا مقصد ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے افغانستان کے لئے نیٹو سپلائی کو روکنا ہے تا کہ امریکہ ڈرون حملے کرنے سے باز رہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف کو نیٹو سپلائی روکنے میں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں متضاد خبریں آ رہی ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی نیٹو سپلائی کے خلاف تحریک زیادہ مؤثر نہیں ہے۔ یا پارٹی قیادت خود اس تحریک میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ بصورت دیگر ایک اہم قومی مسئلہ پر دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے احتجاج کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اس کے حتمی نتائج سامنے آنے سے قبل احتجاج کو لاہور تک پھیلانے کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ دہشت گردی، بے روزگاری، سیاسی بے چینی کی موجودگی میں قیمتوں میں اضافہ ہر فرد اور ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ دنیا کے جس معاشی نظام سے پاکستان بندھا ہوا ہے، اس میں رہتے ہوئے افراط زر پر کنٹرول صرف پاکستانی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی عوامل، ملک کی عمومی معاشی صورتحال اور پیداواری صلاحیت مل جل کر مہنگائی کے بیرومیٹر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوں بھی اگر کسی حکومت کے بس میں ہو تو وہ عام آدمی کو خوش کرنے اور سیاسی اپوزیشن کا منہ بند کرنے کے لئے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی ضرور کوشش کرے۔ یہ کوششیں کسی حد تک کی بھی جاتی ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی جیسے عام مسئلے کو ایشو بنا کر احتجاج کرنا اور دھرنا دینا آسان ترین کام ہے۔
Inflation
لیکن ان ہتھکنڈوں سے مہنگائی پر قابو پانا شاید ممکن نہیں ہے۔ ورنہ سرکاری پارٹی خود ہی دھرنوں کا انتظام کرنا شروع کر دے۔ یوں بھی موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے 6 ماہ کی مدت گزری ہے۔ یہ عرصہ کسی حکومت کی کارکردگی کو پر کھنے کے لئے بہت کم ہے۔ اپوزیشن پر لازم ہے کہ وہ حکومت کو اپنے معاشی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا موقع فراہم کرے۔ چند برس گزرنے کے بعد ہی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے عام آدمی کی معاشی صورتحال میں کوئی فرق پڑا ہے یا اس کے حالات ابتر ہوئے ہیں۔ ان حالات میں بری کارکردگی کی بنیاد پر عوام خود ہی برسر اقتدار طبقے کو مسترد کر دیں گے۔ یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے اور اس کی طاقت بھی۔ گزشتہ دور میں حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام نے اس کی ناقص کارکردگی پر ہی اپنے اعتماد سے محروم کیا ہے۔
یوں بھی لاہور میں کئے جانے والے احتجاج میں تحریک انصاف کو کسی اہم اپوزیشن پارٹی یعنی پیپلز پارٹی عوامی نیشنل پارٹی یا متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس کے برعکس ملکی سیاست میں مسترد سیاسی قوتیں جن میں جماعت اسلامی اور علامہ طاہر القادری کی سیاسی تحریک شامل ہیں۔ تحریک انصاف کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یہ مارجنل سیاسی قوتیں اپنے نقطہ نظر سے ضرور درست سیاسی اقدام کر رہی ہے۔ انہیں ملکی سیاست میں کبھی کوئی اہم نمائندگی حاصل نہیں ہوئی۔ نہ ہی مستقبل میں یہ امکان ہے کہ ان مسترد سیاسی قوتوں کو کوئی بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل ہو جائے گا۔ البتہ یہ جماعتیں تحریک انصاف کی مقبولیت اور عمران خان کی جاذبیت کا فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی قد ضرور بلند کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم یہ بات عمران خان اور ان کے رفقاء کو سوچنی چاہئے کہ تحریک انصاف کو اس سیاسی سرکس سے کیا حاصل ہو گا۔
11 مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی طرح تحریک انصاف نے بھی جمہوریت کے تسلسل کے لئے مسلم لیگ (ن) کا مینڈیٹ قبول کرنے اور حکومت کو کام کرنے کا موقع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب تحریک انصاف کو کسی حد تک دھاندلی کے خلاف اپنے مؤقف میں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ سپریم کورٹ قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کے لئے تحریک انصاف کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر چکی ہے۔ دو حلقوں میں جن میں ایک لاہور کا حلقہ بھی ہے۔ ووٹوں کی تصدیق کے حوالے سے رپورٹ بھی دو ہفتے کے اندر طلب کی گئی ہے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ اگر ووٹروں کی تصدیق کے عمل میں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب قرار پاتے ہیں تو یہ اس کی بڑی سیاسی فتح ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار ہونے کے باوجود بڑی اکثریت کے دعووں کے حوالے سے اپنی مورل اتھارٹی سے محروم ہو جائے گی۔
ان حالات میں تحریک انصاف کو معاملات طے ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔ احتجاج اور دھرنے کی حکمت عملی کے ذریعے ملک میں انتشار پیدا کرنے کے علاوہ یہ جماعت عوام کے ایک طبقے کو بھی مایوس کرے گی۔ ملک کے عوام تمام مسائل کے باوجود سیاسی استحکام اور نظام کی پختگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ بلاجواز احتجاج سے یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔اس کے علاوہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار ہے۔ اس کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ صوبے میں حتی الامکان مثالی حالات پیدا کر کے دکھائے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ثابت کرے کہ اگر وفاق میں بھی اس پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملتا تو وہ حالات کو بہتر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس پارٹی کی قیادت نے اپنی تمام تر توجہ احتجاج اور بیان بازی پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ہمارے خیال میں اس سے ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کی بجائے دگرگوں ہوں گے اور اس سے سیاسی فائدہ نقصان جس کو بھی ہو، عوام کی حالت بہرصورت ابتر ہی ہو گی۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں بھی قابل ذکر نمائندگی حاصل ہے۔
اسے چاہئے کہ وہ اپنا پارلیمانی حق استعمال کرتے ہوئے اسمبلی میں حکومت پر تنقید کرے، سرکاری تجاویز کے متبادل تجاویز لائی جائیں اور پارلیمانی عمل کو باعث توقیر بنایا جائے۔ اگر ملک کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اسبملیوں میں کارکردگی دکھانے کی بجائے احتجاج اور دھرنوں کی پالیسی اختیار کریں گی تو یہ تاثر عام ہونے میں دیر نہیں لگے گی کہ انتخابات کروانے اور اسمبلیاں منتخب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ فیصلہ تو بہرصورت سڑکوں پر عوامی قوت کے مظاہروں کے ذریعے ہی ہو گا۔ یہ تاثر ملک میں جمہوریت اور تحریک انصاف کی شہرت کے لئے بھی مناسب نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مہنگائی کے خلاف جہاد یا سیاسی سرکس شروع کرنے والوں کو بہر طور یہ احساس بھی کرنا چاہئے کہ ملک اس وقت مشکل اقتصادی صورتحال سے دو چار ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے ‘ غیر ضروری طور سے نوٹوں کی چھپائی اور محاصل عائد کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ سیاسی عمل کو مشکلات کا شکار کر کے یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ نہ قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور نہ ملکی وسائل میں تیزی پیدا ہو گی۔ حکومت پر تنقید کرنا اور اس کی غلط پالیسیوں کی روک تھام کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے لئے ایک سیاسی نظام جو راستہ تجویز کرتا ہے اسے اختیار کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔