ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے روٹی، کپڑا اور مکان کا دل پزیر نعرہ لگا کر بینظیر کامیابی حاصل کرتے ہوئے بڑے بڑے بُرج اُلٹ دیئے۔ وہ اپنے دورِ حکومت میں روٹی دے سکے نہ کپڑا اور مکان لیکن یہ نعرہ پیپلز پارٹی کی پہچان بن گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے یہی نعرہ استعمال کیا اور جنابِ آصف زرداری نے بھی لیکن جنابِ زرداری کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ غربت ختم کرنا ممکن نہیں اِس لیے اُنہوں نے غربت کی بجائے ”غریب مکاؤ” میں ہی عافیت جانی۔اپنے پانچ سالہ دَورِ اقتدار میں اُنہوں نے مقدور بھر ”غریب مُکانے” کی کوشش کی، کرپشن کے مگر مچھوں کو کھُلی چھوٹ دی جو کھربوں ڈکار گئے لیکن یہ غریب بھی شاید ڈینگی کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
جنابِ آصف زرداری نے جاتے جاتے یہ ذمہ داری اپنے ”پیروکار ” جنابِ میاں نواز شریف کو تفویض کر دی جو آجکل اپنے ہمراہیوں کے ساتھ بھرپور کوشش و کاوش کر رہے ہیں اور اُمیدِ واثق ہے کہ پیٹ میں جانے والی ہر شے کو غریبوں کی پہنچ سے کوسوں دور کرنے کے بعد وہ بچے کھُچے غریب ”مُکا” ہی لیں گے۔ ویسے بڑے میاں صاحب اگر یہ ذمہ داری خادمِ اعلیٰ کے سپرد کر دیتے تو بہت جلد مثبت نتائج سامنے آ جاتے کیونکہ اُنہیں ڈینگی سے دو ، دو ہاتھ کرنے کا خوب تجربہ ہے اور اب تو صورتِ حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بچے کھچے ڈینگی جان بچانے کی تگ و دَو میں ہیں۔
محترم عمران خاں صاحب نے بھی شاید خادمِ اعلیٰ کی نقل کرتے ہوئے محض نوے دن میں ملک سے کرپشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اُنہیں مرکزکی بجائے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت ملی جہاں چھ ماہ کے دَوران کسی کو کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا اے۔این۔پی چھوڑ کر گئی تھی ۔شاید خاں صاحب کے 90 دن مرحوم ضیاء الحق کے 90 دنوں جیسے ہوں جن کا دَورانیہ 9 سالوں پہ محیط ہوتا ہے۔
میرا ناسازیٔ طبع کی بنا پر آج کالم لکھنے کا بالکل موڈ نہیں تھا۔طبیعت کی ناسازی کی وجہ یہ تھی کہ آج بجلی کا بِل دیکھ کر میرے چودہ کیا، چوبیس طبق روشن ہو گئے اور دماغ توایسا روشن ہواکہ مجھے گزشتہ کئی دنوں سے لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کا سبب معلوم ہو گیا۔ جب سے بِل دیکھا ہے ہم گھر میں بجلی سے چلنے والی ایک ایک شے بند کرکے بیٹھے ہیں۔میں نے تو میاں کو کہہ دیا کہ بازار سے وہ لالٹین لے آئیں جسے لوگ عشروں پہلے جلایا کرتے تھے۔ میاں نے مُسکرا کر کہا کہ وہ لالٹین تو لے آتے ہیں لیکن مٹی کا تیل تو بجلی سے بھی مہنگا ہے ، وہ کیسے جلائیں گے ؟۔میاں کی بات سمجھ میں آ گئی اِس لیے میری صبح سے کوشش ہے کہ ماہانہ گھریلو اخراجات میاں کے سپرد کرکے اپنے آپ کو ”برین ہیمرج” سے بچا لوں لیکن وہ اُس رقم کو ہاتھ لگانے کی بجائے کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
PML N
سبھی جانتے ہیں کہ میں نے نواز لیگ کے حق میں بہت سے کالم لکھے جس پر مجھے طعنے بھی سُننے پڑے۔ اب اگر میں ”لوٹی” بَن کر تحریکِ انصاف میں شامل ہو بھی جاؤں تو وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ مجھے ناقابلِ اعتبار سمجھا جائے گا اِس لیے بہ امرِ مجبوری فی الحال میںنواز لیگ کی حامی ہی ہوں البتہ شدید خواہش ہے کہ لوگ جوق در جوق 22 دسمبر کو خاں صاحب کے مہنگائی کے خلاف احتجاج میں شریک ہوں ، میں گھر بیٹھی دعائیں تو ضرور کرتی رہوں گی لیکن احتجاج میں شریک نہیں ہوسکتی کہ میری ”سیاست دان” لکھاریوں اور اینکروں کی طرح ”لوٹا” بننے کی عادت ابھی پختہ نہیں ہوئی۔
خاں صاحب کے 22 دسمبر کے احتجاج کا سُن کر مجھے انتہائی محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کے دھرنے یاد آ گئے ۔یہ غالباََبی بی شہید کے دوسرے دَورِ حکومت کے آخری دنوں کی بات ہے جب قاضی صاحب نے حکومت کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان فرمایا۔ قاضی صاحب کے دھرنوں سے حکومتِ وقت ہمیشہ لرزہ بَر اندام ہو جایا کرتی تھی۔حکمرانوں نے حفظِ ما تقدم کے طور پر یہ طے کیا کہ جو ”باریش” شخص بھی نظر آئے اُسے گرفتار کر لیا جائے۔ مولوی عبد الرزاق کی نان چنے کی ننھی مُنی دوکان مسجد کے پاس ہی تھی۔ وہ نماز پڑھ کے مسجد سے باہر نکلے تو شومیٔ قسمت مسجد کے سامنے گھات لگائے پولیس والوںکے ہتھے چڑھ گئے۔مولوی صاحب نے اُنہیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ اُن کا قاضی صاحب کے دھرنے سے کوئی تعلق نہیں اور وہ تو نان چنے فروخت کرتے ہیں ۔کچھ واقف کاروں نے بھی پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُن کا ایک ہی جواب تھا کہ اُنہیں ہر داڑھی والے کو ہر حالت میں گرفتار کرنے کا حکم ہے ۔قصّہ مختصر مولوی عبد الرزاق پولیس کے ٹرک کی نذرِ ہوئے۔ بقول مولوی صاحب پولیس کو راستے میں جہاں بھی کوئی داڑھی والا نظر آیا اُسے ٹرک میں ٹھونستے چلے گئے اور واہگہ بارڈر کے پاس جا کر ٹرک ایسے خالی کیا جیسے کچرے کے ٹرک کو خالی کرتے ہیں۔مولوی صاحب جب کئی گھنٹے بعد ہانپتے کانپتے اپنی دوکان پر پہنچے تو وہاں خالی برتن اُن کا مُنہ چڑا رہے تھے۔۔۔ عمران صاحب کے ساتھ چونکہ جماعتِ اسلامی بھی اِس احتجاج میں شریک ہے اِس لیے اُنہیں خصوصی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ ویسے بھی وزارتِ قانون کا قلم دان رانا ثنا اللہ صاحب کے پاس ہے جِن سے کسی بھی قسم کی کوئی بھی توقع کی جا سکتی ہے ۔وہ سونامی کا رُخ تو نہیں موڑ سکتے لیکن سونامی میں گَند ضرور گھول سکتے ہیں۔
جب محترم وزیرِ اعظم نے یہ فرمایا کہ اُنہیں سمجھ آتی ہے نہ پانی بجلی کے وزیر خواجہ آصف کو کہ لوڈ شیڈنگ کیسے ختم ہو گئی۔ تب خواجہ صاحب یہ سوچتے ہوئے زیرِ لَب مسکرا اُٹھے کہ جب بجلی کے بِل لوگوں کے ہاتھ میں ہونگے تو وہ خود ہی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا سبب جان جائیں گے ۔ہمارے یہ خواجہ صاحب بھی بہت ”پہنچی ہوئی” شے ہیں۔ پہلے تو وہ تین چار ماہ تک الیکٹرانک میڈیا پر ”بجلی بچانے” کے طریقے بتاتے رہے لیکن لوگ اُن کے پند و نصائح کو مُسکرا کے ٹالتے رہے۔ سچ ہے کہ لاتوں کے بھوت بھلا باتوں سے کب مانتے ہیں چنانچہ خواجہ صاحب سیالکوٹی نے جلال میں آ کرایسی ”لات” چلائی کہ سارے ”بھوتوں” کی بولتی بند ہو گئی اور اب تو محترم عمران خاں جیسے ”امیر کبیر” بھی بجلی کا بِل دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں ۔حسبِ حال والے ”عزیزی”کا یہ مفید مشورہ مجھے بہت پسند آیا ہے کہ دِل کے مریض بجلی کا بِل دیکھنے سے پرہیز کریں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ خواجہ صاحب نے سینہ تان کے فرمایا تھا کہ 200 یونٹس تک بجلی کے پرانے ریٹس ہی رہیں گے اور ہم نے بھی گھر میںبجلی بچت کی ایمرجنسی نافذ کرکے لگ بھگ 200 یونٹ ہی صرف کیے لیکن بِل پھر بھی چار ہزارسے بھی زیادہ آ گیا۔ اب یہ خواجہ صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں اُنیس، بیس روپے فی یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کی تعداد کتنی ہو گی۔ بجلی کے اِن ریٹس کو دیکھ کر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ لوگ بلدیاتی انتخابات میں نواز لیگ کو ووٹ دیں، نہ دیں لیکن لوڈ شیڈنگ ہر گز نہیں ہو گی۔ نواز لیگ کے بزرجمہر کہتے ہیں کہ تین چار سال میں بجلی کے ریٹس کم ہو جائیں گے۔ بجا ارشاد لیکن اُس وقت تک تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا اور پتہ نہیں حقِ حکمرانی کس کا نصیبہ ٹھہرے۔