باقی جو بچا، وہ مہنگائی مار گئی

Inflation

Inflation

ہمارے پاس باقی بچا ہی کیا ہے جسے مہنگائی مار سکے۔ ہم تو اپنا دِل جمہوریت کے حسین قدموں میں رکھ کر عرصۂ دراز سے گاتے چلے آ رہے ہیں کہ ”رکھ دیا قدموں میں دِل نذرانہ ، قبول کر لو ” لیکن مجنونانِ جمہوریت سے نا خوش ”میڈم جمہوریت” ہمارے دلوں کومتواتر ٹھکراتی چلی جا رہی ہے اور ہمارے کچھ دانشوروں کے خیال میں اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وہ عنقریب روٹھ کر ”مَیکے” چلی جائے گی ۔اگر ہم حضرتِ اقبال کے دَور میں ہوتے تو وثوق سے کہہ سکتے تھے کہ جمہوریت کا ”مَیکا”انگلستان ہے لیکن اب کچھ پتہ نہیں کیونکہ اب اِس کا حلقہ وسیع اور اسے اِدھر اُدھر مُنہ مارنے کی عادت۔ دُنیا کی سب سے حسین جمہوریت تو ہمارے پڑوس میں بستی ہے لیکن وہاں بھی اسے انسانی خون کی چاٹ لَگ چکی ہے ۔ ہم عشق کے ماتوں کی شدید ترین خواہش تو یہی ہے کہ ہماری جمہوریت نہ روٹھے، بھلے وہ اپنے عشوہ ، غمزہ ، اور ناز و ادا سے کُشتوں کے پُشتے لگاتی رہے لیکن اگر وہ روٹھ گئی تو ہم بھی بَد لحاظ ہو کر پہلے اُسے یہ طعنہ دیں گے کہ

وفا کیسی ، کہاں کا عشق ، جب سَر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دِل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

اور پھر ”میڈم آمریت ”کے دَرِ نیاز پہ جبینِ نیاز رکھ دیں گے کہ ہمارے نزدیک تو اِن دونوں میں پاکستان کی حد تک ” کَکھ” فرق نہیں ۔اگر فرق ہے بھی تو صرف اتنا کہ میڈم جمہوریت اپنے حُسن کے زور پر ”ھل مَن مزید”کی خواہش رکھنے والے عاشقوں کا خون چوستی ہے اور آمریت بمثلِ ”کالی ماتا” ۔شاید اسی لیے اقبال نے بھی کہا تھاکہ

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پَری

لیکن ہمارے ہاں تو یہی ”دیوِ استبداد” جمہوریت کا حُسن ہے اور اسی کے ہم گھائل ۔ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ، مہنگائی ، کرپشن ، سب جمہوریت کا حُسن ہی تو ہیں ۔جی تو بہت چاہتا ہے کہ ”حُسنِ جمہوریت” پر مزید لکھیں اور ڈھیروں ڈھیر لکھیں لیکن خوف دامن گیر ہے کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم میاں نواز شریف صاحب کو ”امیر المومنین” بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر وہ امیر المومنین بَن جاتے ہیں تو اِس میں کوئی ہَرج بھی نہیں کہ اسلام میں تو ”امیر المومنین ” ہی ہوتا ہے لیکن مسٔلہ یہ آن پڑا ہے کہ پاکستان میں تو ”مومنین” کی تعداد اتنی بھی نہیں جتنی پرویز مشرف کے حق میں نکالی گئی ریلیوں کے شرکاء کی ہوتی ہے ۔کچھ حسد کے مارے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ”آل پاکستان مسلم لیگ” کے کارکنان کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی اُن کا کیس لڑنے والے وکلاء کی ۔لیکن اِس ”حاسدانہ تجزیے” کو میجر جنرل راشد قریشی تسلیم کرنے کو تیار ہیں نہ احمد رضا قصوری اور نہ ہی شیخ رشید احمد۔عظیم وکیل احمد رضا قصوری تو یہ بات سُنتے ہی بھڑک اُٹھتے ہیں اور باقاعدہ ڈانس کرتے ہوئے غدار ہے ، غدار ہے ، غدار ہے کی رَٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں جبکہ راشد قریشی صاحب کے خیال میں افواجِ پاکستان پرویز مشرف صاحب کی پُشت پناہ ہیں اور افواجِ پاکستان کے حوالے سے ہی اٹھارہ کروڑ عوام بھی کہ فوج بھی تو ہماری اپنی ہی ہے۔ البتہ شیخ صاحب کا معاملہ کچھ مختلف ہے ۔وہ آج بھی تصّورات کی دُنیا میں آمریت کے وزیرِ با تدبیر بنے بیٹھے ہیں ۔اُن کے ساتھ ایک مسٔلہ یہ بھی ہے کہ ڈھیروں ڈھیر ”منتوں تَرلوں” کے باوجود بھی میاں برادران نے اُنہیں گھاس نہیں ڈالی اِس لیے اب وہ حُبِ علی نہیں ، بغضِ معاویہ کے تحت پرویز مشرف کا ساتھ دے رہے ہیں ۔بات مومنین کی تلاش سے چلی تھی ، نکل کہیں اور گئی۔آمدم بَر سرِ مطلب ہم کہہ رہے تھے کہ مومنین کا امیر بننے کے لیے مطلوبہ تعداد میسر نہیں۔ اِس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن ، مولانا سمیع الحق اور محترم (مولانا) عمران خاں سے رجوع کرنا ہو گا۔

Munawar Hasan

Munawar Hasan

ویسے تو انتہائی محترم سیّد منور حسن صاحب بھی اِس معاملے میں مؤثر ہو سکتے تھے لیکن آجکل جماعت اسلامی کی امارت سیّد صاحب سے سراج الحق صاحب کی طرف ہجرت فرما چکی ہے اور سراج الحق صاحب کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ ”مولوی” کم اور سیاست دان زیادہ ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن سے آجکل نواز لیگ کا ”اِٹ کھڑِکا” چل رہا ہے اور مولانا سمیع الحق تو ہیں ہی ‘ ‘ مُوڈی” ۔۔۔۔ جی میں آئے تو عطاء کے دریا بہا دیں اور ضد پہ آ جائیں تو لگی لپٹی رکھے بغیر کھَری کھَری سنا دیں ۔البتہ تلاشِ مومنین کے سلسلے میں کپتان صاحب کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ اوّل تو طالبان کی قیادت خاں صاحب پر کَم کَم ہی اعتبار کرتی ہے ، دوسرے خاں صاحب اِن دنوں اپنی ”سونامی” کو سجانے ، سنوارنے میں مصروف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جب 11 مئی کو اُن کی سونامی”چھَم چھَم” کرتی باہر نکلے تو اُس کے حُسن کے ” لَشکارے” سے سبھی مَدہوش ہو جائیں اِس لیے وہ بھلا تلاشِ مومنین میں میاں صاحب کی مدد کیوں کرنے لگے ؟۔کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال بڑے میاں صاحب کے امیر المومنین بننے کا کوئی چانس نہیں اِس لیے اِس موضوع کو ادھورا چھوڑتے ہوئے ہم پَلٹتے ہیں اصل موضوع یعنی مہنگائی کی طرف کہ جس کی خاطرہم نے قلم تھاما اور جس نے ہماری راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔

جب وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا اور ڈالر کو 98 سے بھی نیچے 96 روپے کی سطح پر لے آئے تو ہم نے جی بھَر کے خوشیاں منائیں اور اپنی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کے لیے طرح طرح کے منصوبے باندھنے لگے ۔خیال تو یہی تھاکہ اب مہنگائی تہس نِہس ہو جائے گی لیکن ”اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا ” ۔ڈالر جیسی مؤثر دوا بھی مہنگائی کے ”مَرضِ مہلک” کے لیے” لا دوا” ثابت ہوئی اور جونہی ڈالر نے نیچے کی طرف سفر شروع کیا مہنگائی رفعتوں کی طرف گامزن ہو گئی اورآج یہ عالم ہے کہ سَستی ترین سبزی ”آلو” بھی 70, 80 روپے کلو مل رہے ہیں ۔ شنید ہے کہ رمضان شریف کی برکتیں ”سمیٹنے” والے اِسے 100روپے تک لا کر چھوڑیں گے ۔اُدھر یوٹیلٹی بِلز قیامت ڈھا رہے ہیں ۔بجلی کے ریٹس دیکھ کر تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ اب بجلی آنے پر ہر دِل سے یہ ”آہ” نکلتی ہے کہ یہ ”مَر جانی” کیوں ہمارا پیچھانہیں چھوڑتی اور جونہی بجلی جاتی ہے سبھی سُکھ کا سانس لیتے ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی ہم نے گھر میں مارشل لاء لگا دیا ہے اور آمریت کے سارے حربے آزماتے ہوئے ”ذاتی لوڈ شیڈنگ” شروع کر دی ہے۔

ہم نے یہ حکم نامہ بھی جاری کر دیا ہے کہ اب دو میں سے کوئی ایک چیز ہی ملے گی ، روٹی یا بجلی۔ اُدھر ہمارے وزیرِ خزانہ صاحب نے یہ ”روح فَرسا” خبر سُنا کر ہمارے برین ہیمرج کا پکّا بندو بست کر دیا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 10 فیصد تک اضافہ ہی ممکن ہے۔حاکمانِ وقت سے دَست بَستہ گزارش ہے کہ یہ 10 فیصد ”زکواة ” بھی وہ قومی خزانے میں جمع کروا دیں تاکہ ملکی اثاثے بڑھ سکیں ۔ہمارا کیا ہے ، ہم تو پہلے بھی گزارہ کر ہی رہے تھے اور اب بھی جیسے تیسے جی ہی لیں گے ۔ایک درخواست ہمیں اپنے وزیرِ خزانہ صاحب سے بھی کرنی ہے جو یہ ہے کہ خُدا کے واسطے ڈالر کو پھر پہلے والی سطح پہ لے آئیں تاکہ مہنگائی نیچے آ جائے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر