مہنگائی عروج پرعوام سولی پر

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

جی ہاں قارئین میں انہی میں سے ہوں جو کہ میاں صاحب کی حکومت کی مداح سرائی کرتے تھے تاہم ابھی بھی ان کی ذات میری پسندیدہ ہے اور وہ میرے لئے وہ نہایت قابلِ احترام ہیں۔ ہوا یہ کہ عوام نے میاں صاحب کو بھاری مینڈیٹ دے کر تیسری باری اقتدار میں لا بیٹھا یا کیونکہ سنیورٹی کی بنیاد پر میاں بردران سب سے اوپر تھے اور اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ میاں جی بھی پر خلوص نیت کے ساتھ اس منصب پر فائض ہوئے۔ عوام جو کے اس حکومت سے ڈھیروں امیدیں وابستہ کر بیٹھی تھی۔ میاں صاحب کی کامیابی سے امید کی کرن واضح نظر آئی تھی مگر نا جانے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کرن کس کالی گھٹا میں چھپ گئی۔ دہشتگردی، قومی سلامتی، بحران اور خراب معاشی صورت حال میں کوئی کرتا تو کیا کرتا جادو کی چھڑی تو نہ ہی اب تک دریافت ہوئی اور اگر ہو بھی گئی ہو تو اب تک کسی بھی حکمران کی اس تک رسائی نہیں ہو سکی۔

سب سے پہلے پچھلا قرضہ اتارنے کے لیئے آئی ایم ایف سے ادھار لینا پڑا جس پر ان کی کچھ شرائط قابلِ اعتراض تھیں پر کرتے کیا نہ کرتے اس سوا کوئی چارا نہیں تھا تو انہیں بھی قبول کرنا پڑا۔ یہ شرائط تھیں کے عوام پر مہنگائی کے ڈرون حملے کر دئیے جائیں جہاں امیروں سے ٹیکس کی وصولی کرنی تھی وہاں غریبوں سے ٹیکس لیا گیا۔ جناب اسحاق ڈار صاحب نے بجٹ پیش کیا جو کے پہلے ہی کڑوی گولیوں کا مجموعہ تھا پر نا جانے کیوں اس بجٹ کو بجائے درست سمت لانے اور اسے عوام دوست بنانے کے اسے عوام کا سنگین دشمن بجٹ بنایا جاتا رہا۔ رمضان المبارک میں بھی پبلک کو کوئی خاصا ریلیف نہیں ملا بلکے ان سستے بازاروں سے مڈل کلاس خریداری کرنے سے قاصر رہے اشیاء خردنوش کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑا جب پنجاب کے وزیرِ خوراک بلال یاسین وہاں
پہنچے تو جناب بغیر ٹماٹر کے سالن پکانے کی ترکیبیں بتانے لگے۔

Khawaja Saad Rafiq

Khawaja Saad Rafiq

جس سے بھی غریبوں کا دل بہت جلا۔ خواجہ سعد رفیق نے خسارے میں ڈھل جانے وا لے محکمہ ریلوے کو بہتری کی طرف گامزن کیا اور کرایہ تک نہیں بڑھا یا سروسز بہتر کر دی گئیں سعد رفیق اپنے تمام ن لیگی بھائیوں کے رول ماڈل ہونے چاہئیں۔ دراصل پاکستان وہ ملک ہے جہاں (Capitalism) سہی معنوں میں ہے تو نہیں مگر کچھ حد تک اس کے جزو یہاں ہیں۔ اس کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ دولت اور وسائل جو کہ صنعتکاری اور دیگر شعبہ جات کا پہیہ چالو کرنے کے لئے استمعال کیئے جاتے ہیں ان کا مخصوص ہاتھوں میں بنٹ جانا ہے۔ کھلے لفظوں میں اسے سودی نظام کہا جاتا ہے جس میں حکومت کا عالمی مارکیٹوں میں کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ جاگیردرانہ نظام یہاں رائج ہے پیسے ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے لئے تو جاتے ہیں مگر عوام کو ان روپیوں سے کوئی غرض نہیں ہے اسے حکمران ہی آپس میں بانٹ لیا کر تے ہیں، 2008ء میں برسرِاقتدار آنے والی سابقہ حکومت نے روپیے کی قیمت کو گرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا سٹیٹ بینک آف پاکستان نے لمٹ کراس کرتے ہوئے بہت کثیر نوٹ چھاپے جو کے روپے کی اہمیت گرانے کا باعث بنا۔

31 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ان پر ہماری سرمایہ کاری بے جا ہوتی تھی اور اعلیٰ عہدوں پر موجود نا اہل افسر ان کرپشن کیا کرتے تھے اس وقت ہماری معیشت ہمیں یہ ہر گز اجازت نہیں دیتی کے کھربوں روپیے کا ضیاع کیا جائے اس لئے یہ اٹھایا گیا قدم قابلِ تسکین ہے۔ مگر جب جنابِ وزیراعظم نیویارک میں تھے تب محکمہ پٹرولیم اور وزیرِمملکت عابد شیر علی نے عوام کو پھر بھیانک تحفہ دیا جو کہ قیمتوں میں اضافہ کرنا تھا۔ اس پر اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جو کہ کچھ دنوں کے مہمان ہیں، نے نوٹس لیا اور حکومت کو اتباہ کی کے یہاں جنگل کا قانون نافذ ہونے نہیں دینگے حکومت نے منت سماجت کر کے کچھ دنوں کی مہلت مانگ لی ہے اور اس پر نظر سانی جاری ہے بظاہر تو قیمت کم کر دی جائیگی مگر کچھ روز تک پھر اضافہ کرنے کو نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائیگا۔ میاں نواز شریف پاکستان واپس آ کر بریفنگ ضرور دیتے کے کس طرح انہوں نے جرت مندی کا مظاہرہ کیا اور اپنا واضح موقف پیش کیا پر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام میں اشتعال پیدا کیا اور وہ سراپا احتجاج ہوگئی۔

جب وضاحت مانگی گئی تو وزارتِ پٹرولیم نے سارا ملبہ اوگر پر ڈالا جب کے اوگر کے مطابق انہوں نے صرف دو روپے اضافے کی سمری ارسال کی تھی جو اہم وجوہات کی بِنا پر سوچ سمجھ کے بھیجی گئی۔ جب وزیرِ مملکت سے پو چھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سرکلر ڈیڈ کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا، جب کے حکومت کی طرف سے بجلی چوری روکنے والی مہم کا اب کوئی وجود معلوم نہیں ہوتا جو کہ پچھلے دنوں بہت سرگرم نظر آئی تھی۔ کیا عابد شیر علی کا اور خواجہ آصف کا یہ فرض نہیں بنتا کے وہ بجلی چوری رکوائیں یا پھر ان کا کام آفس میں بیٹھ کر نرخ بڑھانا ہے۔

اب تک بہت سے کالم نویسوں نے اس موضوع پر مزاخیہ طرز کا تحریر کیا مگر میں نے سوچا کہ تنقید کرنا در ست نہیں۔ نئی نویلی حکومت ہے جلد ساری صورت حال کو سمجھ کر مستقبل میں درست فیصلے کرے گی۔ میاں نواز شریف صاحب آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔ یہ قوم پہلے ہی اکتائی ہوئی تھی آپ کو آخری امید تصور کیا تھا مگر آپ بھی عوام کی امیدوں پر پانی پھیرتے نظر آ رہے ہو۔ خدا آپ کو ہدایت دے کے آپ بجائے کنفیوژن کا شکار ہونے کے ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے بہتر سے بہترین اقدامات کریں۔

Mohammad Waqar Butt

Mohammad Waqar Butt

تحریر : محمد وقار بٹ