مہنگائی کا عفریت مُنہ کھولے کھڑا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ لوگ نانِ جویں کے محتاج اور سیاستدان ”چورچور” کھیلنے میں مصروف۔ پارلیمنٹ کے اجلاس الزام تراشیوںکی نذر ہوجاتے ہیں۔ کسی کو یہ ہوش ہی نہیں کہ پارلیمنٹ کے ایک گھنٹے کے اجلاس پرقوم کا خون پسینے سے کمایا ہوا ایک کروڑ روپیہ صرف ہو جاتاہے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سوائے کرپشن کی داستانوں کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا، سوشل میڈیا اُس سے بھی دوہاتھ آگے۔ نیب کی ”پھُرتیاں” ناقابلِ یقین، بندہ پہلے پکڑتے ہیں اور کرپشن کے ثبوتوں کی تلاش بعد میں۔ نیب کی یہ ساری پھرتیاں نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے، تحریکِ انصاف کے لیے راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ اسی لیے تحریکِ انصاف پر یہ الزام دھرا جاتا ہے کہ نیب تحریکِ انصاف کی دست وبازو ہے۔ اگر انصاف سب کے لیے اور بلاامتیاز ہو تو کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن یہاں کرپٹ صرف وہ، جس کے پاس حکومتی طاقت نہیں۔ ایسے میں بھلا نیب پر کون اعتبار کرے گا۔ بے اعتباری کے اِس موسم میں تحریکِ انصاف کے سارے وعدے اور دعوے خواب وخیال ہوتے نظر تے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کپتان ابھی کنٹینر سے اُترے نہیں۔ وہ اب بھی ”چورچور، ڈاکوڈاکو” کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ کپتان صاحب قوم سے خطاب کر رہے ہوں یا کابینہ کی میٹنگ، ہر جگہ ذکرِاوّل سابقہ حکمرانوں کی کرپشن اور صرف کرپشن۔ اب تو وہ ایک قدم آگے بڑھ کر بیرونی ممالک کے دَوروں میں بھی اِسی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اِس سے ملک کی کتنی بدنامی ہوتی ہے۔ جب ملک کی مقتدرترین ہستی ہی کرپشن کی داستانیں سنا رہی ہو تو اقوامِ عالم پاکستان کو کیوں نہ کرپٹ ترین ملک قرار دیں۔ کم وبیش کرپشن تو ہر ملک میں ہوتی ہے لیکن ترقی کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ یہاں یہ عالم کہ ہم صرف کرپشن، کرپشن کھیل رہے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت عمر کا قول ہے ”اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے انصاف کا پلڑا اُس کی طرف جھک جائے تو پھر اسلامی حکومت اور قیصروکسریٰ کی بادشاہت میں کیا فرق ہوا”۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو جھکتے پلڑے صاف نظر آتے ہیں۔ جب آپ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینک رہے ہوں تو دوسروں کا ردِعمل اظہرمِن الشمس۔ جس بلند آہنگ سے حکمران اپوزیشن کو ”چور، ڈاکو” قرار دیتے ہیں، اُس سے کہیں بلند آواز کے ساتھ اپوزیشن حکمرانوں کو چور، ڈاکو قرار دیتی ہے اور عوام بیچارے حیران وپریشان کہ ”کیدی مَنیے تے کیدی ناں مَنیے”۔ کڑوا سچ مگر یہی کہ پاکستان میں ”جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس” کا قانون رائج ہے۔ جو حکمران، وہ پاک صاف اور ساری اپوزیشن کرپٹ جس کو این آر او دینا ناممکن۔این آراو نامی ”مُک مکا” کی سیاست پرویزمشرف نے شروع کی جس کی گونج آج تک جاری ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ این آراو مانگا کس نے ہے جس کی کپتان اور حواری رَٹ لگائے ہوئے ہیں۔ میاںشہباز شریف نے تو بطور اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کر دیا کہ بتایا جائے این آر او کس نے مانگاہے۔ حکمرانوں کی طرف سے تاحال اِس کا جواب تو نہیں آیا البتہ اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔
این آراو پر سب سے خوبصورت تبصرہ سابق صدر آصف زرداری نے کیا۔ اُنہوں نے کہا ”حکومت نے فساد کے ذمہ داروں سے این آراو کر لیا۔ اُنہوں نے مولوی صاحبان کو چھوڑ دیا اور اب 1200 غریبوں کو پکڑیں گے۔ لگتا ہے حکومت کی انڈر 14 ٹیم کھیل رہی ہے۔ کوئی بیوروکریٹ اِن حالات میں کام کرنے کو تیار نہیں، قوم کو نئے اور پرانے پاکستان کا فرق جلد سمجھ آ جائے گا”۔ تحریکِ لبّیک کے ساتھ معاہدے کی وزیرِاعظم کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈسمتھ نے بھی پُرزور الفاظ میں مذمت کی۔ حقیقت بھی یہی کہ اِس معاہدے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے کیونکہ جو لوگ بار بار آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیرِاعظم کو گالیوں اور فتوؤں سے نوازتے ہوئے لوگوں کو فساد پر اُکسا رہے تھے، اُن کے ساتھ تو معاہدہ کر لیا گیااور پکڑدھکڑ پیروکاروں کی۔ گویا فساد کی شہ دینے والے پاک صاف اور فساد بپا کرنے والے مجرم۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فسادیوں کو معاف کر دیا جائے، اُنہیں نشانِ عبرت بنانا ضروری لیکن اصل مجرم تو فساد پر اکسانے والے ہیں، پھر اُن کے ساتھ معاہدہ کیوں؟۔ حیرت ہے کہ اِن کے خلاف چیف جسٹس صاحب نے ابھی تک اَزخود نوٹس نہیں لیا۔ اگرمُٹھی بھر شَرپسند اِسی طرح سے پاکستان کو بند کرتے رہے توپھر اقوامِ عالم میں پاکستان کی کیا عزت رہ جائے گی؟۔
لاریب اِن حالات میں معاشی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ احتجاج ہر پاکستانی شہری کا حق ہے لیکن ایسا احتجاج جس کے پیچھے شَر چھپا ہو اور جس سے املاک کو نقصان پہنچے، اُس کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ وہ مولوی صاحبان جن کے اکسانے پر کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا، اُن سے سوال ہے کہ کیا دینِ مبیں میں اِس قسم کا فساد پبا کرنے کی اجازت ہے؟۔ یہ کہاں کا اسلا م ہے جس کی تبلیغ مولوی صاحبان کر رہے ہیں؟۔ حُبّ ِ رسولۖ کے بغیر تو کسی مسلمان کاایمان ہی مکمل نہیں ہوتا اور لاریب شاتمِ رسولۖ قابلِ گردن زَنی لیکن توڑ پھوڑ، املاک کو نقصان پہنچانا اور شہروں کو بند کر دینے میں کہاں حبّ ِ رسولۖ مضمر ہے؟۔ آقا ۖ سے محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کو سہولت بہم پہنچائیں، نہ کہ باعثِ آزار بنیں۔ حضورِ اکرمۖ تو راستے میں پڑے ہوئے کانٹے بھی اٹھا لیا کرتے تھے کہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے لیکن ہمارے بزعمِ خویش علمائے دین اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دَرپئے آزار ہو جاتے ہیں جو بہرحال دین کا تقاضہ تو ہر گز نہیں۔
بات باہم الزام تراشیوں سے شروع ہوکر کسی اور طرف نکل گئی، آمدم بَرسرِمطلب عرض ہے کہ نئے پاکستان کے بانی چورچور کے نعرے لگانے کی بجائے کچھ کرکے دکھائیں۔ اُن کے اعلان کردہ 100 دنوں میں سے اب چند دن ہی باقی ہیں لیکن حالت یہ کہ ”صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا، بارہ آنے”۔ فوادچودھری اور فیاض چوہان جیسے لوگوں کے بیانات سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ کپتان صاحب کو بتانا ہوگا کہ اُنہوں نے پچھلے 70 دنوں میں سوائے کابینہ میٹنگز اور قوم سے خطاب کے کیا ہی کیا ہے؟۔ غیرملکی دوروں کا مقصد ”بھیک” مانگنا تھالیکن بھیک یا قرضوں کی بنیاد پر کیا کبھی کسی ملک نے ترقی کی ہے؟۔ انتخابات سے پہلے تو خاںصاحب قوم کو خوشخبری سنایا کرتے تھے کہ وہ سب سے پہلے سوئس بینکوں میں پڑے 200 ارب ڈالر واپس لائیں گے لیکن اب اُن کی زبان پر اِن ڈالروں کا ذکر تک نہیں آتا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اربوں ڈالر سالانہ کے حساب سے مَنی لانڈرنگ اب بھی ہو رہی ہے اور اربوں روپے روزانہ کی کرپشن کے خلاف حکومت نے اب بھی کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ رہا نیب کا معاملہ تو حقیقت یہی کہ وہ بھی اپنا اعتماد کھو چکی۔ یہ تاثر عام کہ جس طرح آمر پرویزمشرف نے نیب کو سیاستدانوں کے گرد شکنجہ کسنے کے لیے استعمال کیا، اُسی طرح تحریکِ انصاف بھی اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے نیب کا بے محابہ استعمال کر رہی ہے۔ اپوزیشن فی الحال تو خاموش لیکن آخر کب تک؟۔