”آج تو آپ کے لیے میرے پاس دعا کے الفاظ نہیں ہیں۔ مسائل اتنے ہیں کہ مجھ سے برداشت نہیں ہورہا۔ بچوں کی فیسیں آمدنی سے متجاوز ہوچکی ہیں۔ بائیک کے لیے پٹرول کے پیسے گھر کے خرچے سے نکالے، کاروبار میں کمی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ ایک ادارہ جو شاید فوڈ اتھارٹی کے نام سے قائم کیا گیا ہے، وہ مجسٹریٹوں سے بھی زیادہ جرمانے کی قوت سے گھیر لیتا ہے۔ اس کے خوف کا عالم یہ ہے کہ ریڑھی، پھٹہ اورچھابڑی والے بھی سڑک کے قریب نہیں پھٹکتے اور پھر سامان بکتا بھی نہیں، پٹرول کے نرخ بڑھاکر منہ سے نوالہ چھین لیا گیا ہے، ہرگھر کو پریشان کردیا گیا ہے۔ دوائیوں اور موبائل کے نرخ بڑھائے گئے۔ ان حالات میں ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ آپ ان مسائل کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں؟” یہ سب مجھ سے مہنگائی سے پریشان ایک بھائی نے کہا تو میں گنگ سا ہوگیا کہ کیا جواب دوں۔ بس اتنا کہہ سکا کہ ”ہمارے لکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟” شاید عوام اپنے دکھڑوں کو سناکر اپنی بھڑاس نکالنے پر توقف کرنے لگے ہیں۔ مجھے ان کی بے بسی دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ اب عوام میں اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ مہنگائی کے اس سونامی کے خلاف احتجاج کے لیے پُرامن طریقہ ہی اختیار کرسکیں۔ شاید انہیں لگتا ہے کہ ریاست ان کے مسائل کا حل تلاش نہیں کرنا چاہتی اور صرف انہیں جھوٹے دلاسے دے رہی ہے، لہٰذا میڈیا کے ذریعے اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ثابت ہوچکا کہ ماضی کی حکومتوں نے جو کیا سو کیا، لیکن رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے پوری کردی ہے۔ معاشی بحران پیدا کرنے والے تو ان کی تنقید کی زد میں ہیں، لیکن بحرانی کیفیت سے نکلنے کا راستہ انہیں بند گلی سے نہیں مل رہا۔ عوام کو حکومتی بیانات و الزامات سے کوئی سروکار نہیں، وہ بس اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، لیکن معاشی بحران کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم نے ماضی میں کیے گئے بڑے دعووں سے یوٹرن لے لیا، قرض کے لیے بیرون ممالک کے دورے سے لے کر آئی ایم ایف تک چلے گئے، لیکن جو سونامی لانا چاہتے تھے، اُس میں کامیابی نہیں ہوئی، انہوں نے جو اقتصادی ٹاسک فورس بنائی تھی، قادیانی معاشی ماہر کو عوامی احتجاج پر ہٹانے کے بعد سے منظرعام سے فورس ایسے غائب ہوئی کہ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہا جائے۔ یورپی پارلیمان کے51اراکین نے وزیراعظم کو تجارتی تعلقات ختم کرنے کے دھمکی آمیز مشترکہ خط الگ لکھ ڈالا۔ وزیراعظم نے اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی سابق وزیر خزانہ اسد عمر کوناراض کرکے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی خدمات حاصل کرلیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ و چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان کو بھی فارغ کردیا گیا۔ ”مجھے کیوں نکالا مہم” میں ابھی کئی مالیاتی اداروں کے سربراہوں کو فارغ کرنے کی اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ ماضی کی حکومتوں میں مقرر کردہ تمام مالیاتی اداروں کے سربراہوں کو تبدیل کردیا جائے گا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات تکنیکی بنیادوں پر ختم ہوچکے ہیں۔ قرض ملنے کی نئی ”خوش خبری” کب قوم کو خطاب کرکے سنائی جائے گی، یا مہنگائی کے بڑھتے سونامی کی تباہ کاریوں پر امدادی کاسہ لیسی جاری رہے گی، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ٹیکسوں کی وصولی میں کمی نے حکومت کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ ڈالر کی قدر کے اضافے کے بھی کوئی ثمرات نہیں ملے۔ بجلی، گیس، پٹرول سمیت بنیادی اشیاء صَرف کی قیمتوں میں اضافے کو تھمنے کی عادت نہیں۔ عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ ہوش گنواتے جارہے ہیں، لیکن حکومت مسلسل انہیں تسلی دے رہی ہے کہ ”گھبرانا نہیں ہے۔” وزیر دفاع نے کل ہی تو کہا کہ ”عوام 6ْ/ 8 مہینے مزید صبر کریں۔” جی بالکل عوام صبر ہی تو کررہے ہیں، اُن کو مزید آتا ہی کیا ہے، ایک یہی آپشن تو ان کے پاس رہ گیا ہے کہ وہ ”صبر” کریں۔ اگر صبر نہ بھی کریں تو کیا کرلیں گے۔ کسی کو کیا فرق پڑجائے گا۔ اگر کوئی فرق پڑنا ہی ہوتا تو کبھی کا پڑجاتا۔ ہم عوام تو ”صبر” سمیت مہنگائی کے سونامی کے ساتھ سیلفی بنانے میں مگن ہیں۔ اس سے فرصت ملے تو عوام شاید کچھ کریں۔
سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا جو معیار ہے، اگر وہی درست کرلیا جاتا تو مہنگے مہنگے مما پاپا انگلش میڈیم اسکولوں کی بھاری فیسوں کی ادائیگی کے لیے عوام کو پریشان نہ ہونا پڑتا۔ مدارس و مساجد میں لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں، اگر علماء کے ساتھ حکومت ایک صفحہ پر آجاتی تو عمارتوں و ٹیچرزکی کمی بھی نہ ہوتی، دینی عصری تعلیم بھی مفت ملتی اور مملکت کے امور چلانے کے لیے ماہرین کو درآمد نہ کرنا پڑتا۔ تاہم دیکھتے ہیں کہ کب دہرے نظام تعلیم کا خاتمہ اور مہنگی فیسوں سے نجات ملتی ہے، اس لیے ابھی گھبرائیں مت، صبر کریں۔
پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر گھر کے خرچے سے رقم تو منہا کرنی ہی ہوگی، کیونکہ گاڑی کا پہیہ چلے گا تو گھر میں کچھ آئے گا۔ کسی دانا نے بڑا اچھا مشورہ دیا تھا کہ قرب و جوار میں جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کریں۔ اس سے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے ثمرات ملیں گے تو بے جا پٹرول کے اخراجات میں کمی بھی ہوگی۔ وزرش ازخود ہوجایا کرے گی تو صحت کے مسائل بھی کم ہوں گے۔ جس کے سبب مہنگی دوائیاں خریدنے کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے۔ بلاشبہ مملکت میں پبلک ٹرانسپورٹ حکومتی سطح پر مہیا نہیں، ورنہ یہ مشورہ ضرور دیتا کہ لوکل ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ ٹریفک کا ازدحام بھی کم ہوگا، نفسیاتی مسائل سے بھی باہر نکلیں گے۔ لندن جیسے شہر میں عوام لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ایک تو انہیں ٹریفک جام سے نجات مل جاتی ہے تو دوسری جانب پیسوں کی بچت کے ساتھ وقت پر مطلوبہ جگہ پہنچ پاتے ہیں، لیکن اس جانب حکومتوں کی توجہ نہیں۔ اب کراچی کو ہی دیکھ لیں کہ ٹرام سروس اور سرکلر ریلوے کی سہولتیں تھیں جب کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ شہر ایسی سہولت سے محروم تھے، لیکن اب شہر قائد بھی محروم ہے۔ گرین بس سے صرف لاہور، اسلام آباد اورملتان کے شہریوں کو کچھ سہولت ہے۔ ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ سسٹم پر اگر سنجیدگی اختیار کرلی جائے تو عوام کو گھر کے اخراجات سے کٹوتی نہ کرنی پڑے۔
چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لیے وزیراعظم نے ”بڑے وژن” کا اعلان کیا تھا کہ انڈے، دیسی مرغی، فارمنگ، کٹے اور مویشیوں کی افزائش و تجارت سے نچلے طبقے کو غربت سے نکلنے میں آسانی ہوگی، لیکن یہاں تو آتے ہی نچلے طبقے کے لاکھوں ریڑھی، پھٹہ اور چھابڑی والوں کو تجاوزات کے نام پر بے روزگار کردیا گیا، کئی دہائیوں سے قائم مارکیٹیں گرا دی گئیں۔ متبادل روزگار فراہم نہیں کیا جاسکا تو دوسری طرف ریڑھی، پھٹہ اورچھابڑی والوں کو پاپی پیٹ کے لیے بڑھتے رشوت کے ریٹ میں اضافے کو بھی مہنگائی کی طرح برداشت کرنا پڑا۔ نچلے طبقے کی محنت و خون پسینے کی آمدنی مہنگائی کے سونامی کی نذر ہونے لگے۔ مہنگائی، بے روزگاری سمیت سب کچھ بڑھ رہا ہے، لیکن ایک چیز میں ٹھہرائو ہے، یہ حکومت کی سب سے بڑی ”کامیابی” ہے کہ پاکستان میں واحد ایسی چیز ہے جو بڑھتی نہیں بلکہ گھٹ رہی ہے، وہ ہے محنت کشوں کی آمدن۔ مہنگائی کے سونامی میں محنت کشوں کی اجرت میں اضافہ نہ کیے جانے پر سرخ توپوں کی سلامی دی جاسکتی ہے۔ ہم سب بالکل بھی نہیں گھبرا رہے کیونکہ ہم اجتماعی ‘کوما’ میں ہیں، اس لیے ‘صبر’ سے کام لے رہے ہیں۔