ہمیشہ سے یہی سُن رہے ہیں کہ ملک زرعی ہے اِس میں کچھ شک بھی نہیں پھر بھی بنیادی ضروریات زندگی خصوصاً آٹا، گندم جو تمام اجناس کا محورہے عوام کی پہنچ سے دور بہت دور جا چکی ہے، ایک وقت تھا جب یہ گندم صرف آٹھ اور نو روپئے من(یعنی چالیس سیر) اور آج یہی گندم پندرہ سو روپئے من اور آٹا ١٦٠٠ سو روپئے سے بھی تجاوز کر گیا، بیس کلو کا تھیلا اب غریب خریدنے سے قاصر ہے کہ اسکی قیمت ٨سو سے بھی کبھی بڑھ جاتی ہے اور غریب کلو دو کلو خریدنے پر مجبور ہے۔
بخدا اِس آٹے کی پکی روٹی پانچ منٹ میں اکڑ جاتی ہے کہ پھر کھانے کے قابل نہیں رہتی اور اِس کا تجربہ صرف غریب کو ہے جو اسے کھانے پر مجبور ہوتا ،آٹا ملیں لکھتی ہیں دیسی گندم کا آٹا اب جب دیسی لوگ نہیں رہے تو اشیاء کیسے دیسی ہونگی اب ٥٠ برس کی عمر کے لوگو کو دیسی گندم کے بارے میں کچھ علم نہیں کے اُس آٹے میں کیا خوبی اور توانائی تھی، آج کی گندم کے آٹے سے پکی روٹی پانچ منٹ کے سوکھ جاتی ہے اس آٹے کا یہ بھی کمال ہے کے گیس کی بیماری کا سبب … لیکن دیسی گندم کے آٹے کی روٹی ١٢ گھنٹے کے بعد بھی نرم اور کھانے کے قابل، آج یہی آٹا ٤٧ سے ٥٢ روپئے کلو ،١٩ سو سے ٢٠٠٠ ہزار روپئے من تک اور یہ غریب عوام کی پہنچ سے اوپر ہے۔
عوام چیخ رہا ہے پرنٹ میڈیا بھی اپنے صفحے کالے کر رہا ،مگر پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ ٹس سے مس نہیںکیوں ،کہ یہ اُن کا مسلہ نہیں تو پھر ….. کہ وہ تو میرے اور قوم کے نمائدے نہیں، قصور تو میرا ہے بلکہ ہم سب کاکہ ہم نے حکمرانوں کو ووٹ دیا یہ نہیں دیکھا کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کرے گا، کاش میں نے ووٹ دیتے وقت سوچا ہوتا کہ میں کس کو ووٹ دے رہا ہوں کیا یہ میرا نمائندہ ہے میرا نمائندہ تو وہ ہوگا جسے میری ضرورت اور مشکلات کا علم ہواور میری آواز بنے…. اب ہم جنہیں منتخب کرتے ہیں وہی ہمارا خون چوستے ہیں۔
زرہ غور کریں اور دیکھیں، اسمبلیوں میں کن لوگوں کو منتخب کر کے بھیجا…. ،سابق اسمبلی میں جاگیرداروں کی اکثریت تھی اور وزیر آعظم بھی جاگیر دار تھا،منتخب نمائندہ جس قبیل سے ہوگا اسی کے مفادات کا تحفظ کریگا،اگر تاجر ہے تو تاجربرادری کے مفادات کو مقدم رکھے گا اگر جاگیردار ہے تو جاگیردار کے مفادات بلکہ اپنی قبیل کے الغرض ہر قبیل کا نمائندہ اپنی برادری کی نمائندگی کرے گا اور اں اسبلیوں می تو عوام کا ایک بھی نمائندہ نہیں.. … ، جنگ ٦٥ ء کے بعد ١٩٦٦ میں گندم ١٦ روپئے من تک پہنچی اور پھر اگلے ٤٠ برسوں میں ١٦ سے ٣٠٠ روپئے من تک سفر کیا ٢٠٠٧ میں آتا ٢٠ کلو تھیلا ٢٦٠ روپئے کا چینی ٢٠ روپء کلو،ڈالر کو لگام دے رکھی تھی جو ٦٨ سے ہل نہ سکا کہ اِسے یارلوگ مشرف آمریت کا دور کہتے ہیں،اور آج بھی اُنہیں اس نام نہاد جمہوری دور کی تعریف کرتے ہوئے شرم نہیں .. …..٢٠٠٨ میں خالص جمہوری دور جو غریب مار کے لئے بدبختی کا دور شروع ہوتا ہے۔
Wheat
اِس جمہوری حکومت کے جاگیر وزیر آعظم نے حلف لیتے ہی پہلا اعلان، ملک کے کروڑوں عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گندم کی قیمت میں ٦٠٠ سو روپئے من کا اضافہ کر دیا پارلیمنٹ کے دونوں ایوان گنگ رہے سینٹ میں وہی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جنہیں عوام نے حلقے سے مسترد کیا ہوتا ہے چونکہ وہ پارٹی کی آواز ہوتے ہیں پارٹی انہیں سینٹ میں بٹھا دیتی اُسے تو خاموش ہی رہنا تھا، مگر جو عوام سے ووٹ لے کر آئے قومی اسمبلی میں وہ اِس ظالمانہ اضافہ پر خاموش رہے کہ اکثریت مفاد پرست خواہ اپوزیشن میں تھے، کیونکہ مفادات میں سب ایک ہیں، قیمت میں اتنے بڑے اضافے کا جواز یہ کہ اس میں کسان کا مفاد جبکہ کسان اور زمیندار میں بہت بڑا فرق ہے ،اور آج ،اگر آٹا ١٩٠٠ سو رپئے من پہنچا ہے تو گندم ١٦٠٠سو روپئے من اور کہا جاتا …..،کسی کسان کے پاس اگر بڑا رقبہ ہوگا تو ٢٥، ایکڑ سے زیادہ نہیں ورنہ تو کسی کے پانچ اور کسی کے پاس دس ایکڑ اب گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا ،مفاد تو بڑے زمیندار وں کا جو ہزاروں لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک، جن کی ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں اور کروڑوں کھیت مزدور ہیں اور لاکھوں من فصل اُٹھاتے قیمت میں اضافے سے اُنہیں فائدہ پہنچایا دوسرے حکومت کے زیر کنٹرول جوادارے اُن کے زریعہ، کھاد، بجلی، ڈیزل، ان کی قیمتوں میں اضافہ اُن سے کچھ واپس لیا بلکہ عوام کو بھی نچوڑ لیا، رہا کسان تو تو وہ اضافہ کے باوجود گھاٹے میں رہا گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔
گندم کی قیمت میں اضافہ سے صرف غریب طبقہ ہی متاثر ہوتا ہے …ایک وقت تھا جب ساگ پات کھا کر …یہ ساگ چارے کے طور پر بھی استعمال ہوتااور تیاری کے بعد سرسوں حاصل ہوتی،ساگ پکانے پر کچھ خرچ بھی نہ ہوتا لیکن آج وہی ساگ یاسبز چارہ بیس کبھی ٢٥ روپئے کلو…چھوٹے کسان نقد آور جنس کے سارا سال یہ فصل حاصل کرتے ہیں ، اب اِس کی مہنگائی کا کیا جواز ہے مگرجو دکاندار منڈی سے لاکر یا پھیری والا ،اگر وہ اسے ساگ پات ہی جان کر بیچے تو وہ ٤٧ روپئے کلو آٹا کیسے خریدے گا،اِس کا مطلب ساگ پات کی گرانی کا سبب آٹے کی گرانی ہے اسی تناظر میں دیکھیں تو مہنگائی کی پہلی وجہ گندم کی قیمت میں اضافہ،دوسری وجہ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور تیسری وجہ بجلی کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ،دنیا کی کرنسیوں میں اگر پاکستانی روپئیہ تلاش کیا جائے تو یہ یتیم کرنسی کہیں دکھائی نہیں دیتی اور سب اہم وجہ کہ ہمارے پاس کوئی اعلیٰ دماغ منصوبہ ساز نہیں اگر ہیں تو مجھ جیسے عقل سے پیدل جن کے سامنے آج ہے کل نہیں وہ آج ہی کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں ان منصوبہ سازوں کے کمال کی ایک مثال…جب گیس ٹرانسپورٹ کے لئے متعارف کرائی تو کسی نے نہیں سوچا کہ کل اِس کے کیا اثرات ہونگے …گندم کی قیمت میں بڑا اضافہ کرتے وقت بھی کسی کے دماغ میں یہ سوال نہیں آیا کہ کل کیا ہوگا ؟ اب مہنگائی کا یہ جن کبھی بوتل میں بند نہیں کیاجاسکتا ، بے شک اخبارات میں مہنگائی کے خلاف صفحات کالے کئے جا رہے اور حکمران غریب کی اشک شوئی کے لئے پرائیس کنٹرول کرنے کی نوید دیتے ہیں جو عوام کے ساتھ نرا دھوکا ہے ،١٢ برس بعد روڑی کی سنی گئی یہ لوگ ١٤ برس بعد آئے ہیں سو عوام کو لوٹنا ہے کہ پھر کیا خبر ….لیکن پاکستانی غریب عوا م ہر بار انہی لٹیروں کو خود پر مسلط کرتے ہیں۔
عوام کے نہانے کا صابن محض ٧٥ گرام ٢٦ روپئے ١١٥ گرام کی ٹکیہ ٤٦ روپئے، یہاں خواص کے استعمال کے صابن کا زکر بے سود کے اُن پر اس گرانی کا کوئی اثر نہیں، بجلی کی گرانی دو روپئے یونٹ کی بجلی دس روپئے یونٹ سے سر اسی پر اکتفا نہیں جگا ٹیکسوں میں بھی اضافہ یہاں بھی بس نہیں عوم سے بل زائد یونٹ درج کر کے، یہاں اس کی تفصیل نہیں کہ کس طرح ہاتھ کی صفائی سے زائد یونٹ لکھ کر چوری شدہ یونٹ پورے کئے جاتے ہیں۔