تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جماں جنج نال ، لال حویلی سے نکلا اور سیدھا اَڈا پلاٹ (رائیونڈ)جا پہنچا۔ لال حویلی سے نکلنے سے پہلے اُس نے ایک احتیاط یہ برتی کہ اپنے فال نکالنے والے طوطے سے فال نکال کر اپنی جھولی معلومات سے بھر لی جس کا اظہار اُس نے اڈاپلاٹ پر اپنے خطاب میں کرکے سب کو حیران کر دیا۔ اُس کی پہلی اطلاع تو یہ تھی کہ ہمارے وزیرِاعظم میاں نوازشریف بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کے ایجنٹ ہیں۔ دوسری اطلاع یہ کہ ممبئی حملوں کے بعد اجمل قصاب کی اطلاع بھی میاں صاحب نے بھارت کو دی۔ تیسری اور سب سے بڑی یہ کہ مودی نے سرجیکل آپریشن میاں صاحب کی خواہش پر کیا تاکہ 30 ستمبر کے اڈاپلاٹ پر کیے جانے والے احتجاج کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ ہمیں یہ تو پہلے ہی خبر تھی کہ سونامیے ”جُماں جنج نال” کو سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن یہ خبر نہیں تھی کہ نوبت یہاں تک آن پہنچے گی کہ دروغ بَر گردنِ راوی جب وہ تقریر فرما رہے تھے تو پیچھے سے ”پاگل ای اوئے ، پاگل ای اوئے” کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔
شیخ رشید المعروف ”شیداٹَلّی” نے کپتان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف حکم دیں، ہم جاتی اُمراکی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ظاہر ہے کپتان صاحب ایک بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں اور اللہ تعالےٰ نے اُنہیں اتنی عقل تو ضرور دے رکھی ہے کہ وہ شیخ صاحب کی اِس ”احمقانہ آفر” کو رَد کر دیں۔ دو دِن پہلے طلال چودھری نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں دعویٰ کیا تھا کہ شیخ رشید نے عمران خاں سے ملاقات میں یہ کہا کہ”لاشوں” کے بغیر کام نہیں بنے گا اِس لیے اگر کوئی بھی لاش نہ ملے تو اُنہیں گولی مار کر لاش کا حصول ممکن بنا لیا جائے۔ طلال چودھری کے اِس بیان پر ہم مُسکرائے بغیر نہ رہ سکے لیکن اُس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اڈاپلاٹ پر تقریر کرتے ہوئے شیخ رشید نے طلال چودھری کے بیان کی تصدیق کر دی۔ اُس نے کہا کہ انقلاب کے لیے خون کی ضرورت ہوتی ہے اِس لیے سب سے پہلے میرا خون حاضر ہے۔ ویسے یہ تو ہمیں یقین ہے کہ اگر خاکم بدہن ایسی کوئی نوبت آگئی تو سب سے پہلے ”دُڑکی” لگانے والے شیخ صاحب ہی ہوںگے۔ شیخ صاحب اپنی بَدزبانی اور بَدکلامی میں تو خیر پہلے ہی مشہور تھے لیکن اب تو اُس نے بازاری غنڈوں کی سی زبان استعمال کرنی شروع کر دی ہے۔ اڈا پلاٹ پر خطاب کرتے ہوئے اُس نے کہا ”یہ مجمع پیشاب کر دے تو جاتی اُمرا میں سیلاب آ جائے گا۔ بِلّورانی سے کہتا ہوں ٍکہ اپنی ماں اور نانا کو فالو کرو ، باپ کو نہیں”۔
ہم نے اپنے کالم کے لیے یہ تمہید محض اِس لیے باندھی ہے کہ جس ملک کے بزعمِ خویش رہنماء ایسے ہوں اُس کی بقا کے لیے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو نشانِ عبرت بنانے والا کوئی مردِجرّی فی الحال تو نظر نہیں آتا۔ یہ شخص کپتان صاحب کو بھی بہت مرغوب ہے اسی لیے تحریکِ انصاف کے اکابرین بھی تمام تر مخالفت کے باوجود اُسے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ انتہائی غیرپارلیمانی زبان کا استعمال بھی خاںصاحب نے شیخ رشید ہی سے سیکھا ہے کیونکہ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر ، باز با باز
Political Parties
میرے آقا کا بھی فرمان ہے ” آدمی اپنے دوست کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔ تُم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ کون کس سے دوستی رکھتا ہے” (مفہوم)۔ جس شخص کے لال حویلی والے جیسے دوست ہوں اُس نے ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کپتان صاحب کو بھی ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تمام تر کوششوں کے باوجود اڈاپلاٹ کا احتجاج مؤخر کرنے پر قائل نہ کیا جاسکا۔ سوال یہ ہے کہ اِس احتجاج پر اُنہیں حاصل کیا ہواسوائے اِس پیغام کے کہ ملکی حالات خواہ کچھ بھی ہوں، اقتدار کی جنگ جاری رہے گی ۔گویا اقتدار پہلے اور ملک کی سلامتی بعد میں۔ چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے بھی اُن کا ساتھ نہیں دیا جس پر خاںصاحب نے کہا ”مجھے کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مجھ سے ناراض ہیں ۔ آپ اُن کے پاس گئے ہی نہیں ۔ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ میں نے کوئی رشتہ کیا ہوا ہے جو وہ مجھ سے ناراض ہو گئے ۔ میں رشتہ مانگنے گیا تھاجو وہ ناراض ہوئے”۔ کیا کسی ایسے شخص کو یہ جملے زیب دیتے ہیں جو ایٹمی پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کا دعویدار بھی ہو۔
اُدھر دشمن ہماری سرحدوں پر دستک دے رہا ہے اور اِدھر اقتدار کی جنگ ۔ ہم نے اِنہی کالموں میں لکھا تھا کہ کشمیر کی تحریک جن رفعتوں کو چھو رہی ہے اُس سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت ضرور کوئی نہ کوئی حرکت کرے گا ۔ ہمارا لکھا سچ ثابت ہوا اور بُزدل دشمن نے جمعرات کو بھمبر، کیل اور لیپا سیکٹرز میں بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے دو جوان شہید ہوئے ۔ جوابی فائرنگ میں 14 بھارتی فوجی واصلِ جہنم ہوئے اور بھارت کی 3 فوجی چوکیاں تباہ کر دی گئیں ۔ ایک بھارتی ”سورما”گرفتار ہوا۔ اب بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ انڈین فوجی کی رہائی کی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔ بھارت نے اس اشتعال انگیزی کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دیا جو سراسر لغو اور بے بنیاد ہے ۔ کسی بھارتی ”سورما ” میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ پاکستانی سرحدوں کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے ۔ ہماری بہادر افواج ہمارا مان ہیں اور پوری قوم بھارت کو مُنہ توڑ جواب دینے کے لیے صف آرائ۔
بھارت کو بہت اچھی طرح سے خبر ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ٹیکنالوجی میں اُس سے کہیں آگے اِس لیے حسابی کتابی ہندو لالہ چھوٹی موٹی شرارتیں تو کر سکتا ہے جیسی اُس نے جمعرات کو کی لیکن باقاعدہ جنگ کی حماقت کبھی نہیں کر سکتا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں تو اُس کے ملک میں صدیوں تک گھاس بھی نہیں اُگے گی ۔ وہ دراصل اقوامِ عالم کی توجہ کشمیریوں کی تحریک سے ہٹانا چاہتا ہے ۔ کشمیر کی تحریک کی اٹھان بتاتی ہے کہ اب یہ معاملہ رُکنے والا ہے نہ دَبنے والاکیونکہ اب تحریکِ آزادی کی باگ ڈور کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ بھارت کا مقصد محض یہ ہے کہ چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ کی جائے تاکہ اقوامِ عالم درمیان میں آ کر ایک دفعہ پھر پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں اور بھارت کو سنبھلنے کا موقع مِل سکے لیکن اب ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتاکیونکہ اِس تنازع کا تیسرا بڑا فریق کشمیری نوجوان ہے جو آزادی سے کم پر اپنی تحریک ختم کرنے کو تیار نہیں۔