واشنگٹن: ایک طویل مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانوں میں ناانصافی اور امتیازی رویہ بھی شکار ہونے والے دوسرے فرد میں ڈپریشن، گھبراہٹ، مایوسی اور دیگر امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
اگرچہ اس کے دیگر بالخصوص جینیاتی عوامل بھی بیان کئے جاتے رہے ہیں لیکن پہلی مرتبہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے رویہ بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں ٹفٹس اسکول آف آرٹس اینڈ سائنس میں نفسیاتی صحت سے وابستہ لیب کے سربراہ ایڈولفو جی شاویز کہتے ہیں کہ دفاتر، معاشرے اور اداروں تک میں ہونے والے امتیازات اس کے شکار ملازمین پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان میں ایک کو نظرانداز کرکے دوسرے کو قرض دینے سے لے کر، پذیرائی اور درجوں میں ترقی دینے تک کے تمام مراحل شامل ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں اس نا انصافی کا خراج متاثرہ شخص کی نفسیاتی صحت کی صورت میں ہوتا ہے۔ لیکن معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ کر فوبیا، اینزائٹی، خطرے کے ان دیکھے احساس یعنی پینک ڈس آرڈر تک کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ لیکن ماہرین ایک عرصے تک اس کی وجہ صرف جینیاتی عوامل کو ہی قرار دے رہے تھے تاہم اب اس میں ناانصافی اور امتیازات کا پہلو بھی شامل ہے۔
اس مطالعے میں 25 سے 74 عمر کے 1500 افراد شامل تھے اور ان میں 48 فیصد تعداد خواتین کی تھی۔ ان تمام شرکا سے امتیازی رویے اور دماغی صحت کے سوالنامے بھروائے گئے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے مدد کرنے پر دوسروں کی سردمہری اور شکریہ نہ ادا کرنے کے رویے کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس سے بھی مایوس ہوئے ہیں۔
طالبعلموں نے بالخصوص اساتذہ کے رویے کو شدید مایوس کن قرار دیا اور بعض نے کہا کہ وہ استادوں کے امتیازی رویے سے ایک عرصے تک پریشان اور مایوس رہے تھے۔ بعض افراد نے نسل پرستانہ جملوں، کسی کی شخصی عادت کے متعلق لطائف اور چٹکلوں کو بھی مایوس کن قرار دیا۔
اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عملی، زبانی، اور اشارہ جاتی، یعنی ہرطرح کا امتیاز دوسروں کو ڈؑپریشن میں ڈال سکتا ہے۔