معصوم بچے، جنسی درندوں کے نشانہ پر

Children Sexual Abuse

Children Sexual Abuse

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بچوں سے جنسی درندگی کے واقعات اور قتل کی خبریں جس تیز رفتاری سے سامنے آرہی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ ہم اخلاقی تباہی کے آخری موڑ پر آچکے ہیں گزشتہ چھ ماہ کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو یہ جاں کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جنسی زیادتی اور قتل کیئے گئے بچوں کی عمریں تین سے گیارہ سال کے درمیان تھیں زینب واقعہ جنسی درندگی کی پہلی اور قتل کی آخری واردات نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے اور بعد جس تواتر کے ساتھ معصوم بچوں کوجنسی بھیڑیوں نے نوچا وہ ہمارے لئے انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل بیان ہے یہاں تک کہ ماہ رمضان المبارک میں جنسی زیادتی اور قتل کی ورداتوں میں کمی نہ آسکی ،سانچ کے قارئین کرام ! اگر ہم صرف پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے گزشتہ سات ماہ میں رجسٹرڈ ہونے والے واقعات کا ذکر کریں تو انکی تعداد126ہے جس میں 129 ملزمان کو نامزد کیا گیا ،سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سات ماہ میں 156بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں روزانہ گیارہ معصوم بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کرنے والا اکثر کوئی قریبی عزیز یا محلہ دارہی نکلتا ہے اور سب سے افسوناک اور گھناؤنی بات یہ کہ کئی کیسوں میں یہ درندے متاثرہ بچوں کے سگے رشتے نکلتے ہیں جن میں ماموں ،چچا، خالواور بعض کے والد بھی اپنی بچی کے ساتھ یہ مکروہ گھنائونا فعل کرتے ہیں ، ایک معتبر زرائع کے مطابق گزشتہ روز ضلع قصور کی تحصیل پتوکی میں چونیاں بائی پاس کے قریب سے 3 لاپتہ بچوں کی مسخ شدہ لاشیں اور انسانی اعضا برآمد ہوئے، ایک بچے کی لاش صحیح حالت میں، جبکہ 2 بچوں کے سر اور ہڈیاں برآمد ہوئیں، قتل ہونے والا 8 سال کا فیضان رواں ہفتہ کو پیر کے دن لاپتہ ہوا تھا جبکہ سلیمان دس اگست اور علی حسنین ایک ماہ سے لاپتہ تھے،علاقہ مکینوں کے مطابق بچوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ 2 ماہ سے جاری ہے، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ضلع قصور میں خاص طور پر اور پنجاب بھر میں معصوم بچوں سے جنسی درندگی اور قتل کی وارداتوں کا ذکر کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ2018 میں بچوں سے زیادتی کے 250 سے زائد کیس درج ہوئے جبکہ2017 میں زیادتی کے 4 ہزار 139 واقعات رپورٹ ہوئے ،وفاقی محتسب کی رپورٹ کے مطابق زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں دیکھے گئے تھے جہاں 1 ہزار 89 کیس رپورٹ ہوئے، اگر دیکھا جائے تو سینکڑوں کیس رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے اُسکی سب سے بڑی وجہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بیشتر بچے غریب، ان پڑھ اور پسماندہ خاندانوں کے ہیں جو پیسے اور دھونس دھمکی پر دباؤ میں آجاتے ہیں۔

جبکہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بچوں سے زیادتی کے واقعات میں زیادہ تر بااثر سیاستدان، دولت مند اور پڑھے لکھے افراد ملوث نکلتے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوتا ،رواں برس کے شروع میں وفاقی محتسب کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ صرف قصور میں 10 برسوں میں 272 بچوں سے زیادتی کے کیسز ہوئے لیکن سزا صرف چند ملزمان کوملی ،گزشتہ دنوں قصور میں ملنے والی تین بچوں کی نعشوں کے ورثا ء میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ جب پولیس کے پاس جاتی تھی تو کہتے تھے کہ تمہارا بچہ خود گھر سے گیا ہو گا جا کر اپنے رشتہ داروں یا دربار یا میلے میں تلاش کرو،یہ ہے ہمارے ہاں پولیس کا عمومی رویہ کیا بہتری آئے گی اس معاشرے میں اب اگراعلی حکام اور سیاسی شخصیات کے بیانات پر غور کریں تو وہ ہی سلسلہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سننے کو مل رہا ہے بس اگر فرق پڑا ہے تو اس طرح کے واقعات میں اضافہ کو ہی پڑا ہے ورنہ ملزمان تو اِکا دُکا ہی پکڑے گئے ہیں۔

صوبائی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کا پیش آنا انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہے ،متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی جائے گی،آئی جی پنجاب عارف نواز نے کہا ہے کہ پولیس کی پانچ ٹیمیں اس معاملے پر صبح شام کام کریں گی یہ کیس ان کی ترجیح ہے اور وہ ذاتی طور پر اس کی نگرانی کریں گے،انھوں نے کہا کہ بہت ظلم ہوا ہے ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد مجرم کو پکڑ لیں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او چونیاں کی سستی کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے، سانچ کے قارئین کرام ! غفلت برتنے پر ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا تھا، جبکہ وزیراعظم نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او قصور کو بھی معطل کر دیاایسے واقعات پر معطلی کا واقعہ بھی کوئی نیا نہیں ہے بارہا ایسا ہو چکا ہے لیکن افسوس کہ پولیس کا رویہ اغوا ہونے والے بچوں کے والدین کے ساتھ ہمیشہ جارحانہ ہی کیوں ہوتا ہے اُس پر فوری ایکشن لینے کی بجائے وقت ضائع کردیا جاتا ہے جس دوران اغوا شدہ بچہ اکثر قتل ہوجاتا ہے۔

ضلع قصور کے علاقہ چونیاں میں بچوں کے اغواء زیادتی اور قتل کے دلخراش واقعہ پر شہری سراپا احتجاج ہیں زرائع کے مطابق تاجروں اور وکلاء کی ہڑتال بھی جاری ہے جبکہ مشتعل مظاہرین نے تھانے پر حملہ بھی کیا آئی جی نے 6 رکنی تحقیقاتی کمیٹی جبکہ پنجاب حکومت نے 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے دوسری طرف 9 مشکوک افراد کو حراست میں لیکر ڈی این اے ٹیسٹ کرا لئے گئے ہیں،وہاں کے تاجروں کا کہنا ہے متاثرہ والدین کو انصاف ملنے تک کاروبار بند رکھیں گے، اگر دیکھا جائے تو معصوم بچوں کے ساتھ جنسی درندگی اور قتل کے واقعات کسی ایک ضلع یا شہر میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ پر ہورہے ہیں ان جنسی درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے حکومت کو انکے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ایسے واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس کے نظام کو بہتر کرنے کے ساتھ اورعدالتوں سے قانون کے مطابق سخت ترین سزائیں دلوانا ہونگی اور ایسے گھنائونے فعل کی پشت پناہی کرنے والے چھپے ہاتھوں کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دلوانا ہو گی۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
03336963372