وطن عزیز پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے بڑھتے واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس سے معاشرہ میں بے راہ روی اور حیوانیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا ،جنسی درندوں میں اکثرایسے شعبوں کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جنھیںعام طور پر معاشرہ میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بچوں خاص طور پر معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں میں سکول استاد ،مدرسوں کے مولوی ،ہمسائے ، قریبی رشتوں کی بڑھتی تعداد انتہائی دلخراش ہے اسلامی مملکت میں جنسی درندگی خاص طور پر گینگ ریپ اور بعد ازاں قتل کے واقعات کا ہونا معاشرہ کے ہر فرد کے لئے لمحہ فکریہ ہے ،سانچ کے قارئین کرام ! ایک غیر سرکاری ادارے ساحل کی رپورٹ اورپنجاب حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو جمع کرائی گئی رپورٹ کا ذکر کیا جائے تو2016-17 کے اعدادوشمارپڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پہلے غیر سرکاری ادارے ساحل کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 11سے زیادہ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے 467، لڑکوں کے ساتھ ریپ کے 366، زیادتی کی کوشش کے 206، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 158 واقعات ہوئے،رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں سے 109 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جو 2016 کی نسبت اس قسم کے واقعات میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے،جنسی درندگی کا شکار ہونے والوں میں 58 فیصد بچیاں اور 42 فیصد بچے تھے۔
زیادتی کا شکار بچوں کی اکثریت 6سے 10سال کی عمر کے تھے ،بچیوں کے اغوا کے بعد زیادتی کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت 13فیصد اضافہ ہوا ہے،رواں سال میں یہ تعداد مزید بڑھ چکی ہے سانچ کے قارئین کرام !اس رپورٹ پرپنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورواور حکومتی نمائندے تحفظات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن کیا پنجاب حکومت کی جانب سے بھیجی گئی رپورٹ غیر سرکاری ادارے کی کسی حد تک توثیق کرتی نظر نہیں آتی ؟ پنجاب حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق 2017 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا سرکاری ریکارڈ کے مطابق لاہور میں بچوں سے زیادتی کے 107 واقعات پیش آئے قومی اسمبلی کی کمیٹی میں جمع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں دو برسوں میں مجموعی طور پر 1297 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا سال 2016 میں 645 اور 2017 میں 652 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 17ـ2016 کے دوران جنسی زیادتی کے شکار بچوں میں 252 بچیاں اور ایک ہزار45 بچے شامل ہیں۔
صوبائی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں 43 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ پنجاب کے دیگر شہروں میں قصور میں 66، شیخوپورہ میں 38 اور خوشاب میں50 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تین بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کے حوالے سے ایک ہزار 446 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 21 کو سزائیں سنائی جا سکیںگرفتار ملزمان میں سے 166 کو شواہد کی عدم دستیابی کے باعث رہا کردیا گیا۔قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے ،رپورٹ ہونے والے 10620 واقعات لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 7242 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔سانچ کے قارئین کرام !یہ تو چند وہ رپورٹیں تھیں جو منظر عام پرآئیں ، اسلامی مملکت میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے ہونے والے واقعات اور انکی بڑھتی تعداد کو دیکھ کرسر شرم سے جھک جاتا ہے وطن عزیز پاکستان کا آئین اور یہاں بنائے گئے قوانین کو اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق بنایا گیا ہے پھر یہاں معصوم بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات کا ہونا ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ابھی یہاں دیگر جرائم لڑکیوں کے اغوا ،جبری شادی،گمشدگی کے اعداد وشمار پیش نہیں کیے گئے اگر اُنکا ذکر کیا جائے تو کالم کے لیے کئی صفحات درکار ہونگے بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کی کئی ایک وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشی کا فروغ ، بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کوجدید معاشرہ کی ضرورت قرار دینا ہے۔
ایک طرف چیختی ،چلاتی ،سسکتی، بلکتی معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے اگرچہ جنسی درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو گرفتار کر کے سزائیں بھی دی جا چکی ہیں لیکن پھر بھی ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ کی وجہ فحش اور عریاں فلموںکی آسان دستیابی،لغو ڈائیلاگ کی ٹی وی سیریل، مخرب اخلا ق رسائل،نجی محفلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاںکر نے والے زنانہ تنگ لباس، تعلیمی اداروں میں مخلوط پروگرام، شراب اور منشیات کا بے دریغ استعمال نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کر کے بے راہ روی کا زریعہ بن رہا ہے جنسی درندگی کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے قانون کو حرکت میں لا کر اِن خرافات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ عورت کی عصمت وعفت کے لئے دین اسلام کی تعلیمات کو معاشرے میںبھر پور طریقہ سے نافذ کیا جائے ، سکولوں کالجوں خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر میں قائم اداروں میں تفریح کے نام پر ناچ گانے پر پابندی انتہائی ضروری ہے اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات برانگیختہ کرنے والا مواد، فلمیں ڈرامے جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہو ممنوع قرار دیے جائیں۔