تحریر : عزیر اکبر لاہور لاہور میں معصوم بچے اور بچیوں کی گمشدگیوں اور انھیں اغوا کرکے ماں کے سینے میں خوفناک آگ بھڑکانے سے ان تخریب کاروں کے کیا کیا مفادات وابستہ ہیں۔ اس پر کسی عدالت، انتظامیہ، بیورو کریسی، پولیس حکمرانوں نے کبھی توجہ ہی نہیں دی اولاً تو بیرونی اسلامی ممالک میں” اونٹوں کی دوڑ “جس پر اربوں روپوں کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ اور اسلامی ممالک کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے اس ریس کو دیکھنے کے لیے لوگ چلے آتے ہیں۔ اونٹ کی پیٹھ پر پانچ سے دس سال عمر کے بچوں کو کس کر رسیوں سے باندھا جاتا ہے۔ جب اونٹ سوار سخت چابک کو گھما کر بچے کو بے دردی سے پیٹتا ہے تو بچے کی چیخیں وہ مخصوص آوازیں ہیں جو اونٹ سن کر اپنی پوری تیز رفتاری سے بھاگ نکلتا ہے، یعنی اونٹ کو تیز دوڑانے کے لیے صرف معصوم بچوں کی آہ و بکا ہی تیز انگیزی (catalyst) کا کام کرتی ہے۔
بادشاہ شہزادے اور سود خور سرمایہ پرست نو دولتیے اس ریس کو دیکھ کر خوب تالیاں بجاتے ہیں اور جس اونٹ پر ان کا دائو لگا ہوتا ہے اس کی جیت کے لیے خود بھی چیخ و پکار کرتے ذور لگا رہے ہوتے ہیں یہ ریس انسانیت کی توہین ہی نہیں بلکہ معصوم بچوں پر تشدد ظلم و سفاکیت کی انتہا اور خدائی قہرمانیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مشہور سونامی جس طوفان کا نام ہے وہ سمندری ساحلوں پر ہی چند سال قبل برپا ہوا تھا کہ اس مخصوص ساحل پر چھوٹے چھوٹے گھر”HUTS”بنے ہوئے تھے جو کہ سجاوٹ میں لاجواب اور ہمہ قسم خمرو کباب کا بھی اس میں وافر انتظام موجود ہوتا تھا۔ دنیا بھر کے عیاش امیر زادے بالخصوص سمگلر افراد وہاں داد عیش دینے کے لیے پہنچتے تھے اور معصوم بچیاں غالباً نابالغ بھی انھیں وہاں پیش کی جاتی تھیں۔
اکثر ایسے جھونپڑی نما عیاشی خانوں سے کئی کم عمر بچیاں صبح بے سد ھ اور مری ہوئی بھی پائی جاتی تھیں۔ کسی معصوم ننھی بچی کی چیخ و پکاررات کے آخری پہر کے سناٹے میں خدائے عز و جل کے عرش کو جا ٹکرائی تو رب ذوالجلال کے جلال نے سمندر کی وہ پوری پٹی کئی سینکڑوں میل تک طوفان کی زد میں دے ڈالی اور وہ تمام جھونپڑیاں غرق سمندر ہو گئیں۔ یہ ہماری معصوم بیٹیاں کم عمری میں اغوا کرکے پھر پال پوس کر انھی جگہوں یا پھر” اُس بازار” میں فروخت کی جاتی ہیں۔ ادھر اونٹ ریس میں استعمال کرنے کے لیے بچے جو اغوا کیے جارہے ہیں۔ آخر یہ سبھی ان اوباشوں کی آماجگا ہوں، اڈوں پر کس راستے سے پہنچائے جائیں گے۔
Police
واضح ہے کہ اسی ملک کی شاہراہوں، بحری جہازوں، لانچوں، ہوائی جہازوں کے ذریعے ہی باہر “برآمدگی “ہوگی اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب تمام راستوں پر موجود ہماری پولیس ، انتظامیہ کو” بھرپور رضا مند”کیاجائے گا۔ ان کی مٹھیاں گرم کی جائیں گی تب ہی ہمارے معصوم بچے بچیاں باہر شفٹ کیے جاسکیں گے اور اونٹوں کے پیچھے بندھے چیختے چلاتے ہوئے وڈیروں، سرمایہ پرستوں کے منہ پر ہنسیاں لانے کے موجب بنیں گے اور سمندی کناروں پر قائم جھونپڑیوں میں سات آسمانوں کے عرشوں پر معصوم بچیوں کی چیخ وپکار پہنچتی رہیں گی۔
چند سالوں سے اسلامی ممالک کی آپس میں فرقہ وارانہ کشیدگیاں اور قتل و غارت گریاں وہاں مقتدر اور سرمایہ پرست افراد کی غالباً ایسی ہی حرکات کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ ایسے اغوا شدہ بچوں کو چار پائیوں کو بُننے والے بان یعنی منج کی رسیوں سے ٹانگوں اور بازوئوں کوگٹنوں اور کہنیوں سمیت باندھ دیا جاتا ہے روزانہ ان پر پانی کا چھڑکائو کرتے ہیں تو روز مزید کسا چلا جاتا ہے اسطرح دو ہفتوں کے اندر ہی بازو اور ٹانگیں دوبارہ سیدھی نہیں ہوسکتیں اور بچہ لولا لنگڑا ہو جاتا ہے۔
ان کے ” مالک ” اوباش بڑے شہروں کے چوکوں میں صبح “مانگنے کمانے” کے لیے چھوڑ آتے ہیں اورشام کو سارا مال سمیٹ کر کمائو بچہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ جس نے ایسے آٹھ دس بچے “پال “رکھے ہیں اس کا سمجھیں یہیں سعودیہ لگا ہوا ہے۔ یہ کریہہ کاروبار بچوں کے ساتھ روا رکھنے والے واقعی قابل گردن زدنی ہیں اگر ہمارے حکمران بیورو کریٹ اور حفاظتی ادارے ایمانداری سے ان کی سرکوبی کر ڈالیں۔
Awais Ali Shah
اپنی موٹی توندوں کو ان اغوا کاروں کی طرف سے ”نذر نیاز، نذرانے ” کیے گئے حرام کالے دھن سے نہ بھریں تو یہ غلیظ کاروبار دیدہ دلیری سے نہیں چل سکتا۔ شہیدوں کے خاندان کے سپوت موجودہ فوجی سربراہ اس کا خصوصی نوٹس لیں اور جس طرح سلمان تاثیر، گیلانی اور چیف جسٹس سندھ کے بیٹے انھی کی تگ و دو سے صحیح سلامت واپس آگئے ہیں اسی طرح ان 652 بچوں کو بھی واپس لانے کے لیے پورے وسائل استعمال کریں۔ حضور والا! یہ وی آئی پی بچے تو نہ ہیں مگر کسی ماں کے لخت جگر تو اسی طرح ہیں جس طرح ان بڑوں کے تھے۔ ان کی مائیں بھی راتوں کو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی ہیں کہ ہمارا بچہ بچی اس وقت کس حال میں ہو گا۔ خدارا ایسے انسانیت دشمن سفاک مجرموں کو دہشت گردوں سے بھی بڑی اور خوفناک سزائیں بذریعہ فوجی عدالتیں دی جائیں تاکہ رہتی دنیا تک مثالیں قائم ہوجائیں اور یہ گھنائونا کاروبار مستقلاً ختم ہوجائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لے کر آئی جی پنجاب سے رپورٹ تو طلب کرلی ہے مگر ایسے بے غیرت بے حمیت ظالم و سفاک انسانوں کی شکل میں وحشی درندوںکو جب تک چوکوں پر لٹکایا نہیں جاتا تو پھر یہ سب کہانیاں ہیں۔ والدین بھی خود حفاظتی اقدامات کریں کسی نئے شخص کو گلی میں سے گذرتے دیکھیں تو اس کی پوچھ گچھ کریں پہلے بھی کئی کالموں کے ذریعے عرض کر چکا ہوں کہ ملک کے ساڑھے چار کروڑ بالغ نوجوانوں کو لازماً تین ماہ کی فوجی تربیت دیں اور ہر شخص کو متعلقہ تھانہ میں اندارج کرواکرایک جدید اسلحہ سے مسلح ہونے کی اجازت دیں تاکہ خود حفاظتی کے تقاضے بھی تکمیل پا سکیں کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ در پیش ہے۔
Pak Army 1971
اگر ہم مکمل مسلح ہوتے تو 1971 میں ہماری افواج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہندو مہاشے ہماری 28 ہزار معصوم بہنوں بیٹیوں کو بھارت نہ لے جاسکتے معصوم بچوں کو اغوا کرنے والے خونخوار سفاکوں کے تینوں کریہہ کاروبار وضاحت سے بیان کر دیے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ حکمرانوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اور کیا حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔وگرنہ!ظالماں دے ظلم دی اخیر ہونی ٹھاہ ! ہن خدا دی حکومت قائم ہونی واہ !واہ۔