تحریر: ڈاکٹر احسان باری اسلام تو سلامتی کا دین ہے صرف اپنے ماننے والوں کو ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ساتھ بھی رواداری اور عزت و احترام کا درس دیتا ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں یا کسی بھی پالیسی کے نہ ہونے کی سزا معصوم پھول بھگت رہے ہیں۔ معصوم ننھے بچوں کے سکول پر دہشت گردی، قتل و غارت گری اور ظلم و بربریت کوئی مسلمان تو کرہی نہیں سکتا۔ جو نام نہاد تنظیمیں ایسی وارداتوں کوقبول کرنے کی دعویدار ہیں ان کے کفر میں تو شائبہ تک نہ ہے بلکہ ایسے افراد قابل گردن زدنی بھی ہیں۔
نابغۂ عصر و عقبری ٔ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے صرف سترہ سال کی عمر میں الجہاد فی الاسلام نام کی کتاب لکھ کر اسلام میں جہادی سرگرمیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں مکمل طور پر واضح کردیا تھا جس کے بعد مغربی دنیا آج تک اس کا جواب نہیں دے سکی ۔ وگرنہ ان کی نظر میں اسلام میں جہاد کا تصور کوئی دہشت گردانہ کاروائی کا نام تھا ۔ جس جہاد کو مختلف دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے نام پر برپا کئے ہوئی ہیں وہ سراسر دین اسلام کے خلا ف تصور ہے۔
یہ جہاد کے نام کو بھی بدنام کررہے ہیں۔جہاد تو قلم، زبان اور عمل سے بھی ہوتا ہے اور جان و مال سے بھی ، مگر کسی بھی حکومت یا حکمران کیخلاف اس وقت تک واجب نہیں ہے جب تک وہ عملاً اسلام دشمنی پر نہ اتر آئے ، ہمارے ملک میں ایسی کوئی صورت نہ ہے۔ نہ کوئی کافرانہ بادشاہت قائم ہے اور نہ ہی حکمران غیر مسلم ہیں یا اسلام دشمنی کا کوئی عمل کررہے ہیں ۔ اس لئے سٹیٹ کے خلاف باغیانہ طرز عمل اختیار کرنا دینی اقدار اور جہادی تصورات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اور یہ غیر آئینی اور غیر اسلامی بھی ٹھہرا۔بے قصور غریب عوام، سفر کرنے والی گاڑیوں، بسوں، ریلوے ، مختلف چوکوں ہسپتالوں میں خود کش بمباری بھی جہادی عمل نہ ہے ۔خود کش بمبار بہرحال ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہتھیار ہے۔
Peshawar Incident
پھر مارنے والے بھی مسلمان اور مرنے والے بھی مسلمان اگرہوں تو یہ الٹا دین اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کہلائے گی۔ پاکستانی وزیر اعظم فوراً تمام اکابرین ملت ، تمام مسالک کے جید علماء کرام ، تمام دینی جماعتوں ، تنظیموں اور تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی ایک وسیع البنیاد قومی کانفرنس بلوائیں اس میں ایسی واضح پالیسی کے بارے میں سوچ بچار کریں جو حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق بھی ہو اور جس کے تحت یہ دہشت گردانہ سرگرمیاں بھی ختم ہوجائیں اور ملک میں امن و امان کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوجائے۔ سکول کے بچوں پر دلیرانہ و بزدلانہ قاتلانہ حملے کے بعد مرکزی اور متعلقہ صوبائی حکومت کے حکمران رہنے کا بھی کوئی جواز نہ ہے۔ شریف اور عمران دونوں کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہئے۔ معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسان نہیں بلکہ خونخوار اور وحشی درندے ہیں۔
انہوں نے سو سے زائد بچوں کو خون کی ندیوں میں نہلاڈالا اور ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے ۔ بہرحال یہ امر تفتیش چاہتا ہے کہ ان تنظیموں کی پشت پناہی اور انہیں فنڈنگ کون کررہاہے ۔کئی مرتبہ ایسی دہشت گردی کے مرتکب افراد کا تعلق بھارتی تنظیم ”را” اور بیرون ممالک کی خفیہ تنظیموں سے ثابت ہوچکا ہے ۔ دہشت گردوں کا یہ دعویٰ کہ ہم تو جہادی ہیں بالکل عبث ، ناقابل یقین اور محیرالعقول بات ہے ۔ کیونکہ جہاد اسلامی میں تو اس بات کا واضح لائحہ عمل کا کھلا اعلان ہے کہ اگر کافر کے خلاف بھی جہاد ہورہا ہوگا تو معصوم ننھے بچوں، طلبائ، خواتین، بوڑھے اور معذور افراد پر قطعاً حملہ نہ کیا جائے گا۔
حتیٰ کہ مکمل فتح کے بعد بھی ایسا عمل مانع ہے۔ بے قصور بچوں پر بزدلانہ حملہ کوئی بے دین یا اسلام دشمن ہی کرسکتا ہے۔ 16دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کے دن ایسا واقعہ رونما ہونا پوری قوم کو سوگوار کرگیا ۔ تقریباً ڈیڑھ سوبچوں کی شہادت اور سو سے زیادہ زخمی بچے جس بربریت کا شکار ہوئے وہ پورے پاکستان اور خود صدر اور وزیر اعظم کے گھر وںپر حملے کے مترادف ہے۔ اب وزیر اعظم کی طرف سے صرف پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس سے وہ نتائج مرتب نہ ہوسکیں گے جو کہ اس وقت مطلوب ہیں۔ چونکہ ثابت شدہ دھاندلیوں کی پیداوار اسمبلیوں کی حیثیت اب متنازعہ ہو چکی ہے۔