جدت یا ذلت

Indira Gandhi

Indira Gandhi

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
ہندوستان کی سابقہ وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے ایک مرتبہ اپنی قوم سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ پاکستانی قوم کو کسی بھی میدان میں شکست دینا انتہائی مشکل ہے ۔ اگر اس قوم کو شکست دینا چاہتے ہو تو اس کی ثقافت کو ختم کر دو ۔ پھر یہ قوم لڑنے کے قابل نہیں رہے گی ہندوستانی قوم نے اپنی لیڈر کی بات کو صحیفئہ آسمانی سمجھ کر اسی دن سے یہ کام شروع کر دیا۔

آج واقعی ہر طرف ہندوستانی کلچر کا راج ہے یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟جب ڈش اینٹینا پاکستان میں وارد ہوامگر یہ عام پاکستانی کی پہنچ سے باہر تھا ۔پھر ہندو بنیئے نے اپنی چاپلوسی اور چالاکی سے یہاں کیبل نامی جراثیم کو داخل کر دیا جس پر ہندوستانی چینلز کی بھر مار کر دی بلکہ میں یہ کہوں گا کہ پاکستانی قوم پر کیبل بم سے اٹیک کر دیا گیا ۔جس پر بڑے دلنشین انداز میں ہمارے ملک میں بالخصوص نوجوان نسل کے دماغوں میں بغاوت کا بیج بو دیا پھر آہستہ آہستہ یہ قوم کیبل وائرس سے اتنی متاثر ہوئی کہ اپنا تشخص یکسر پس پشت ڈال کر ہندووانہ اطوار اپنے آپ پر طاری کر لئے۔

آج جب میں پاک دھرتی کی بیٹیوں کو ایسی حالت میں دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے لباس تو جسم کو ڈھانپنے کے لئے پہنا جاتا ہے مگر اب یہاں لباس جسم کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ اور نمایاں کرنے کے لئے پہنا جا رہا ہے ۔کیا یہ تھی اس دھرتی کی ثقافت ؟ایسی قمیضوں کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے جن کی آستینوں کو عضو لا علاج کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا ہے ۔جس کے سر پر دوپٹہ یا چادر دکھائی دے اسے جاہل گنوار اجڈ اور دیہاتی کے القابات سے نوازا جا رہا ہے ۔بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے تصور کے بنا زندگی کو نامکمل سمجھا جانے لگا ہے۔

Pakistani Fashion

Pakistani Fashion

میرے دیس کے جوان گھبرو جو کبھی چلتے تھے تو دھرتی کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی ارض پاک خوشی سے سرشار ہو جاتی تھی آج اسی دھرتی کے نوجوان جب کولہوں سے نیچے پتلون پہنے کسی انڈین ماڈل کی نقالی کرتے کمر لچکا کر چلتے ہیں تو بڑا دکھ ہوتا ہے۔آج ان کے ہیرو بھارتی فلم ایکٹرز ہیں۔اور یہ انہی کی طرح سوانگ رچائے ہیوی بائیکس لئے سڑکوں پر مٹر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں پاکستانی جو کبھی بہنوں بیٹیوں کے محافظ تھے آج ان کا پیچھا کرتے چھیڑ خانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں یہی دشمن کی چال تھی جو اس نے بڑی خوبصورتی سے کھیلی اور ہم مات کھا گئے۔

اس دھرتی کا خوبصورت نوجوان اب اپنا حلیہ بگاڑ کر مطمئن ہے اتنے پیارے چہروں پر ٹھوڑی سے ذرا اوپر اور ہونٹ کے نیچے داڑھی کا تھوڑا سا حصہ ایسے بنا کر پھر رہا ہے جیسے دشمن نے اس کی ثقافت کو ختم کر کے اوپر تصدیقی نشان انگھوٹھا ثبت کر دیا ہے سر پر مانگ نکالنے کی بجائے سرکنڈوں کی طرح بال کھڑے کئے فخر سے گھوم رہا ہے اب سر سے پائوں تک اپنی ثقافت ختم کر کے کہتا ہے یہ جدت ہے اس پہ طرہ یہ کہ پاکستان میںکام کرنے والی موبائل کمپنیوں نے بھی ہماری ثقافت کے منہ میں مختلف پیکجز کا زہر گھول دیا ہے ۔میرا نوجوان ہاتھ میں موبائل پکڑے اس انہماک سے میسج لکھنے میں مصروف ہوتا ہے کہ اسے آس پاس رواں ٹریفک کا ذرہ برابر بھی پتہ نہیں چلتا ۔وہ دنیا و مافیھا سے بے خبر اپنے کام میں محو ہے اور ایسے میں بہت سارے حادثات بھی رونما ہو چکے ہیں۔

سستے کال پیکجز نے میری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔کانوں میں ہینڈفری لگائے میری دھرتی کے سپوت کسی مخبوط الحواس کی طرح خود کلامی کرتے ہوئے رواں دواں ہیں ۔کیونکہ یہ موبائل کمپنیاں جان چکی ہیں کہ سب سے زیادہ دماغ سے عاری پاکستان میں بستے ہیں ان کو پیکج دے کر نوٹ بنائو اور یہ کام کے رہیں گے نا کاج کے آئے روز ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ موبائل دوستی کی وجہ سے لڑکی اپنے ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال کر بھاگ آئی اور پھر جس کی خاطر وہ سب چھوڑ چھاڑ کے آئی اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کی عصمت کو تار تار کر دیا ۔ اب وہی بیٹی نا گھر کی رہتی ہے نا گھاٹ کی ۔ایسی خبریں کم از کم مجھ پر تو بجلی بن کر گرتی ہیں۔

Mobile Packages

Mobile Packages

ایسا ہوتا کیوں ہے صرف اور صرف موبائل پر مفت جیسے پیکجز کی وجہ سے مغرب زدہ ماحول کے پروردہ بگڑے ہوئے نوجوان کسی معصوم اور بھولی بھالی لڑکی کو موبائل پر دوستی کی آڑ میں پھنساتے ہیں پھر ناجانے اس کو کیا کیا سہانے سپنے دکھاتے ہیں کہ قوم کی وہ بیٹی جو اپنی روایات کی امین تھی بغاوت پر اتر آتی ہے۔

اس کلموہی جدت نے شرافت ثقافت اور عصمتوں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے ایسی ناجانے کتنی بیٹیاںاس جدت کے ہاتھوں ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہیں دھرتی کی نا جانے کتنی بیٹیاں اس جدت کے ہاتھوں اپنی دوشیزگی پر محو ماتم ہیں اسی جدت کی بنیادپر آج لڑکی ہو یا لڑکاوالدین کی نافرمانی کرنا اپنا فرض اولین سمجھ بیٹھا ہے اسی جدت نے عزت و عفت کو روند کر رکھ دیا ہے اسی جدت نے عدالتوں میں طلاق کے کیسوں کی شرح کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے ۔اسی جدت نے ماں باپ کو گندم کی گولیاں کھانے یا پھانسی کے پھندے پر جھولنے پر مجبور کر دیا اسی جدت نے غیرت کے نام پر قتل کی بڑھوتری میں مدد دی ہے کیا اب بھی ہم اسے جدت کہیں گے ؟ یا ذلت کہیں گے ؟جو قومیں اپنی ثقافت کو چھوڑ دیتی ہیں تاریخ میں ان کا نشان بھی نہیں ملتا۔

MS-H-Babar

MS-H-Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Email ;mhbabar4@gmail.com
Mob; 03344954919