کیف (جیوڈیسک) مشرقی یوکرین میں ملائیشین مسافر طیارے کی تباہی نے امریکا اور روس کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے۔
کہ جدید اور مہلک روسی ہتھیاروں کی مدد کے بغیر طیارے کو گرانا ممکن نہیں،ادھر روس نواز باغیوں نے ایک بار پھر سانحے میں ملوث ہونے کی تردید کردی ہے۔
روسی سرحد سے صرف 31 میل کی دوری پر ملائیشین ائیر ویز کے مسافر طیارے کی تباہی نے عالمی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، واقعے کے بعد یوکرین میں امریکا اور روس کے درمیان تنائو کھل کر سامنے آگیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے نے مبینہ طور پر روس نواز باغیوں کی وہ بات چیت بھی جاری کردی جس میں پہلے یوکرین کا کارگو طیارہ تباہ کرنے کا دعویٰ سامنے آیا اور پھر یہ انکشاف ہوا کہ اندازے کی بھیانک غلطی نے ملائیشین طیارے کے دو سو اٹھانوے مسافروں کو موت کے منہ میں پہنچا دیا ہے۔
فلائٹ ایم ایچ سیوینٹین کو بک نامی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیاجن کے بارے میں امریکی ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ یہ میزائل باغیوں کو روس کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں سانحہ کے پیچھے روسی ہاتھ قرار دے دیا۔
مشرقی یوکرین میں ریاست کے خلاف لڑنے والے باغیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس صرف تیرہ ہزار فٹ کی بلندی تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں لیکن گزشتہ دنوں باغیوں نے یوکرین کے جس فوجی جہاز کو مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا وہ 31 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔
باغیوں کا دعویٰ اپنی جگہ،انہوں نے عالمی اداروں کو حادثے کے مقام پر جانے کی اجازت بھی دے دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بد نصیب طیارے کے ملبے سے ملنے والے نشانات کا کھُرا باغیوں تک پہنچا تو پشت پناہی پر موجود پیوٹن کے نیچے سے زمین نکل جائے گی۔