انکوائریاں در انکوائریاں افسران کا حکم یا افسر شاہی کا قانون فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کا اندراج مشکل ہو گیا

Pir Mahal

Pir Mahal

پیرمحل (خرم شہزاد بھٹی سے) انکوائریاں در انکوائریاں افسران کا حکم یا افسر شاہی کا قانون فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کا اندراج مشکل ہو گیا درخواست دینے کے بعد اے ایس آئی ، انویسٹی گیشن انچارج ، ایس ایچ او ، ڈی ایس پی ، کا فریقین کو سننے کے بعد رپورٹ درج کی جاتی ہے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے دوماہ سے تین ماہ کا عرصہ درکارتفصیل کے مطابق تحصیل کمالیہ و پیرمحل کہ تھا نو ں میںایف آئی آر جوکہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ہوتی ہے ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر اس کے اندراج کے لیے شہریوں کو ایک تکلیف دہ مرحلہ سے گذارا جاتا ہے جس میں شہری پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی درخواست گذارتا ہے جو تھانہ محرر اے ایس آئی کے حوالے کر دیتا ہے جو فریقین کو بلاکر سنتاہے اور رپورٹ بنا کر ایس ایچ او کے حوالے کر دیتا ہے۔

ایس ایچ او دوبارہ فریقین کو طلب کرکے سنتاہے جس کی رپورٹ ڈی ایس پی کو بھجوادی جاتی ہے پھر ڈی ایس پی فریقین کو طلب کرتا ہے اور رپورٹ ڈی پی او کو بھجوادی جاتی ہے وہاں پر بھی فریقین کو اکثر طلب کیا جاتا ہے بعدازاں اس پر ایف آئی آر درج کرنے یا دوبارہ سماعت کے احکامات جاری ہوتے ہیں فریقین کو دوبارہ اس تکلیف دہ مرحلہ سے گذا راجاتا ہے اور ڈی پی او کے حکم کے بعددرخواست واپس ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے پاس آجاتی ہے جس کی صوابدید ہے کہ وہ مقدمہ درج کرے یا فریقین کو طلب کرے۔

ان تمام مراحل کے دوران فریقین نہ صرف بھاری رشوت دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں بلکہ آئے روز فریقین کی سماعت کروانے کے لیے اپنے اپنے گواہان کو ساتھ لے جانے اور لانے پر بھاری اخراجات صرف کرنے پڑرہے ہیں اتنے تکلیف دہ مرحلہ کے باوجود مقدمہ کے اندراج میں کامیاب ہونے والے افراد کو تفتیش کے نام پر اسی وقت انویسٹی گیشن کے حوالے کردیا جاتاہے جس کی مرضی ہے کہ وہ اس ایف آئی آر کو درست تسلیم کرے یا خارج کردے سماجی فلاحی حلقوں نے ڈی پی اوٹوبہ ٹیک سنگھ اور آر پی او فیصل آباداور آئی جی پنجاب سے مطالبہ کیا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کا اندراج آسان بنایا جائے۔