واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اتوار کو علی الصباح نطنز میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے سے امریکا کا کوئی سروکار نہیں۔ امریکا کی توجہ ایران کے جوہری معاہدے سے متعلق ہونے والے مذاکرات پر مرکوز ہے۔
امریکی ذرائع نے واشنگٹن میں بتایا کہ امریکیوں نے نطنز میں ہونے والی کارروائی کے بعد مشرق اوسط میں امریک
تنصیبات اور فوجیوں کے تحفظ کے لیے کوئی غیر معمولی اقدامات نہیں اٹھائے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ امریکا نے نہیں کیا۔
انہی ذرائع نے مزید بتایا کہ ’’امریکیوں کو ایرانی کی جانب سے اپنے فوجیوں کا مفادات کو نشانہ بنانے کا کوئی خطرہ نہیں۔‘‘
یہاں اس امر کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے آج اسرائیل پر اپنی جوہری تنصیبات پر حملے کا الزام عاید کیا تھا اور اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ ایران نے کہا تھا کہ مغربی دنیا اور ایران کے درمیان 2015 کو طے پانے والے جوہری معاہدے کے احیاء کی سفارتی کوششوں کے باوجود تہران اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کرنے جا رہا ہے۔
ایران کی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی کے حوالے سے سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’نطنز کی جوہری تنصیبات میں جو کچھ ہوا وہ تحریبی کارروائی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایران کے سکیورٹی ادارے مجرموں کے نیٹ ورک تک پہنچ چکے ہیں۔ تحقیقات جاری ہیں، جن کا نتیجہ جلد سامنے لایا جائے گا۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر محسن رضائی نے ایک ٹویٹ میں عندیہ ظاہر کیا تھا کہ نطنز تنصیبات میں لگنے والی آگ ایران کے سکیورٹی سسٹم کو غیر ملکی ایجنسی کی جانب سے ہیک کرنے کے نتیجے میں لگی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل اور امریکی انٹیلیجنس کے دو عہدیداروں کا ایک بیان نقل کیا ہے جس کے مطابق ’’حملے میں اسرائیل کا کردار دکھائی دیتا ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ تنصیبات میں ہونے والے زور دار دھماکے سے یورینیم افزودگی کے لیے زیر زمین سینٹری فیوجز کے داخلی سسٹم کو بجلی فراہمی مکمل طور پر بند ہو گئی تھی۔