اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم اور جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں، اٹھارہویں ترمیم پر آنچ نہیں آنے دیں گے، اس کے لیے لانگ مارچ بھی کرنا پڑا تو تیار ہیں۔
کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے بلالو بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمیں آزادی اظہار کے لیے جدو جہد کرنی ہے، اس کے لیے پارلیمانی اور عدالتی فورم کو استعمال کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ باقی ادارے اپنے آپ کو طاقتور بناسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں؟ ملک کے مستقبل کا فیصلہ صرف منتخب لوگوں کے پاس ہونا چاہیے، کسی اور کے پاس نہیں۔
بلاول نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس 200 قابل لوگ موجود ہیں، کس ملک میں 3 بجٹ ایک سال میں آتے ہیں؟ آپ اتنے بزدل ہیں کہ شہبازشریف کی تقریر برداشت نہیں کرسکتے، ملک کیسے چلا سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ‘آنٹی علیمہ کے لیے بجٹ میں سہولت فراہم کی گئی، گالی کی بجائے پارلیمانی فورم استعمال کریں، آپ پہلے انسان بنیں پھرسیاست دان اورحکمران بنیں’۔
بلاول نے مزید کہا کہ عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں، سلیکٹڈ وزیراعظم کواپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔
بلاول بھٹو کا اپنی شادی سے متعلق سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ‘اسٹریٹجک ملاقاتیں تو ہورہی ہیں، شادی کیلئے درست وقت کا تعین کررہے ہیں’۔
بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ‘الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد یا الیکشن مہم کے دوران شادی پرغور ہورہا ہے، غور کررہے ہیں کہ ایک شادی کروں یا چاروں صوبوں سے ایک ایک بیوی ہونی چاہیے’۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ ‘غور کررہے ہیں کہ اس شادی کے کیا انتخابی اثرات مرتب ہوں گے، رپورٹ مکمل ہوجائے گی تو آپ کے سامنے پیش کروں گا’۔
صحافیوں کی موجودہ حالت زار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی صحافیوں کے ساتھ ہے، ہم نے مل کر جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنی ہے، آزادی صحافت کو قانون سازی کے ذریعے تحفظ دے سکتے ہیں۔
بلاول نے کہا کہ صحافیوں کو قانونی تحفظ اورسہولیات کے لیے قومی اورصوبائی سطح پر قانون سازی ہونی چاہیے، پریس کلب کے عہدیدار، صوبائی وزیرقانون، محکمہ اطلاعات مل کرآزادی صحافت کے تحفظ کے لیے مسودہ قانون تیارکرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اظہار رائے کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی ہے، میڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں، قدم بڑھائیں مجھے اپنے ساتھ پائیں گے، اظہار آزادی کے لیے ہمیں پارلیمانی اورعدالتی فورم کواستعمال کرنا پڑے گا۔