ادارہ فروغ قومی زبان ہی اردو میں رکاوٹ

Urdu

Urdu

تحریر : روہیل اکبر

کہتے ہیں کہ جب کسی ملک کو تباہ کرنا ہو تو اسکے اداروں میں نااہل افراد کو تعینات کردیں اور یہاں پر تو نااہل حکمران ہم پر کئی دہائیاں مسلط رہے جنہوں نے کرپشن کے نئے نئے ریکارڈ کیے پی آئی اے،پاکستان ریلوے،پاکستان اسٹیل اور واپڈا جیسے اداروں کو تباہ کیا ہماری پولیس کرپٹ ترین اداروں میں شامل ہوگئی جی ٹی ایس ختم ہوگئی اور آج نئے پاکستان میں بھی وہی پرانا نظام چل رہا ہے کیونکہ سابق کرپٹ اور چور حکمرانوں نے ہر ادارے میں چن چن کر اپنے جیسوں کو تعینات کیا جنہوں نے ہماری ترقی کا سفر ہی الٹا شروع کررکھا ہے اس وقت ملک کے تقریبا سبھی اداروں کا کردار اور انکا کام عوام کے سامنے ہیں مگر ایک ایسا ادارہ بھی ہے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں اور اکثر لوگ تو اس ادارے کے نام سے بھی واقف نہیں ہونگے تو اسکے کام سے کیسے واقف ہونگے اس ادارے کے سربراہ کو بھی سابق چور حکمرانوں نے اسکی تباہی کے لیے تعینات کیا تھا جنہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس ادارے کا بیڑہ غرق کیا۔

میری مراد ادارہ فروغ قومی زبان سے ہے جو اس وقت ملک میں نفاذِ اردو کے لیے خود ہی بڑی رکاوٹ ہے ادارہ فروغ قومی زبان نے اپنے ابتدائی ادوار میں نفاذ اردو کے لیے بہت اعلی پائے کی کتب، لغات وغیرہ تیارکرلی تھیں جن کو بعد میں آنے والے سربراہان آج تک باربار شائع کرکے اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کررہے ہیں اکثر سربراہ اپنی شاہانہ زندگی اور ادبی مصروفیات سے آگے نہ بڑھ سکے بلکہ ادارے کے ترقیاتی پروجیکٹ بھی بند کرواتے رہے۔ جن میں سرفہرست موجودہ سربراہ جناب افتخارعارف صاحب ہیں جنکے ساتھ ساتھ ادارے کے ملازمین کی کارکردگی بھی مایوس کن حد تک صفرہوچکی ہے جہاں پر سربراہان اور چند افسران نے چھوٹے ملازمین کے حقوق غصب کررکھے ہیں کام کرنے والے ملازمین بدظن ہوچکے ہیں۔

افسران ایسے حقوق کا استعمال بھی کررہے ہیں جن کا ان کو استحقاق نہیں ہے۔ ادارے کے ملازمین کے سی پی فنڈز کے پانچ کروڑ روپے وفاقی حکومت کے اکاونٹ میں جمع کروادیے گئے جس سے ملازمین کو انفرادی طورپرلاکھوں روپے کا نقصان ہورہا ہے اور اس سلسلہ میں وزیراعظم کا شکایت سیل میں بھی خاموش ہے چھوٹے ملازمین جن کو دیے گئے قرض پرحکومت سود نہیں لیتی مگرادارہ فروغ قومی زبان میں درجہ چہارم کے ملازمین سے بھی لاکھوں روپے سود کی مدمیں وصول کررہا ہے چند سال پہلے جب مقتدرہ قومی زبان کی حیثیت وفاقی حکومت کے ایک ملحقہ ادارہ کی بن کراس کا نام ادارہ فروغ قومی زبان بنا اس وقت حکومت کی طرف تمام بنک اکاونٹس ختم کرنے کا حکم ہوا مگرشعبہ حسابات کے افسران نے جان بوجھ کرایک اکاونٹ کوپوشیدہ رکھا جس میں ملازمین کی کٹوٹی شدہ اور خردبرد کی رقوم کو رکھتے اور استعمال کرتے رہے اور اس اکاونٹ کو اب منظرعام آنے کے بعد اب بند کر کے اسکی تمام ٹرانزیکشن پر پردہ ڈالا جارہا ہے کہ اس اکاؤنٹ کی رقم کون استعمال کرتا رہا جو ملازمین ادارہ کے مطابق اس کرپشن یا لاپروائی میں شامل رہے آج بھی وہی لوگ افسران بالا سے سالانہ اعزازیہ لیتے ہیں جبکہ عام ملازمین کے اعزازیہ کی زیادہ تررقم چند چہیتے افسران میں تقسیم کرلی جاتی ہے۔

کرپشن کی طویل کہانیوں کے پیچھے اس وقت کے موجودہ ڈائریکٹرجنرل کی نامزدگی بھی ہے جو اب اس ادارہ کی جان چھوڑنے پر رضا مند ہوگئے ہیں موصوف ایک عمررسید ہ شخص ہیں جن کی اپنی صحت کے مسائل ہیں جناب افتخارعارف صاحب تیسری مرتبہ ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مدت اسی ہفتے پوری کررہے ہیں افتخارعار ف صاحب کے دوسرے دورمیں ادارے کے تمام اہم اور جدید ترقیاتی پراجیکٹس بند کردیے گئے تھے۔ افتخارعار ف صاحب کی بطور ڈی جی تعیناتی کے دوران تما م قواعدوضوابط کو بالائے طاق رکھ کر ادارے کی مزید تباہی کی ذمہ داری سونپی گئی کیونکہ موجودہ ڈی جی کی عمرتقریباً اسی سال ہے، جن کی تعلیمی اسناد کو آج تک ہائرایجوکیشن کمیشن نے تصدیق نہیں کیا، بس ان کے پاس اعلی تعلیمی کمیشن کا غیرمتعلقہ مساوی نامہ جو انکا ایم اے پاس ہونا ثابت نہیں کرتا، ادارہ کے سربراہ کا گریڈ اکیس کا حاضرسروس ریگولر آفیسرہونا چاہیے تھا جبکہ ادھرخلاف قواعد ایم پی ون سکیل دے کرملکی معیشت کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا گیا اورکرپشن کی حد یہ ہے کہ نولاکھ روپے تنخواہ کے ساتھ غیرقانونی طورپرلاکھوں روپے کا میڈیکل بھی لے رہے ہیں جبکہ عام ملازمین پرمیڈیکل کے دروازے بند ہیں صرف دو لوگ میڈیکل فنڈز لے سکے اور وہ بھی ایک ہائی کورٹ کے ذریعے اور دوسرے کو وفاقی محتسب رجوع کرنا پڑا۔ادارہ فروغ قومی زبان میں کوئی دوسال قبل ایک خطاطی انسٹیٹیوٹ بنایا گیا جس کے لیے 75 لاکھ کی رقم منظورہوئی اور وہ کرپشن کی نظرہوگئی اورآج تک کسی کام کا کوئی آڈٹ نہیں کروایا گیا۔

حال ہی میں ہونے والی خطاطی نمائش کے لیے قومی تاریخ او ادبی ورثہ ڈویژن سے پچیس لاکھ کی خطیررقم منظورکرواکر کرپشن کی نظر کردیے گئے مارکیٹ سے مہنگی کیٹلاگ اور لٹریچرچھپوایا گیا، جعلی بل بنائے گئے کانفرنس کے اختتام پرلگ بھگ سو افراد کو ناقص چائے پیش کرکے ڈویژن کو ساڑھے تین سو افراد کا بل ارسال کردیا گیا یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ڈویژن کو پنتیس لاکھ کے جعلی بل پیش کیے گیے ہیں جس پرڈویژن نے اعتراض لگارکھا ہے افتخارعار ف صاحب کی بطورڈائریکٹر جنرل نفاذ اردو کے لیے کارکردگی انتہائی مایوس کن ہی نہیں بلکہ صفرہے کیونکہ آج تک نفاذ اردو کے لیے انہوں نے کوئی سنجیدہ کوئی کوشش ہی نہیں کی نفاذ اور نہ ہی نفاذ اردو کے لیے کوئی پراجیکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اردو سیل ادارہ فروغ قومی زبان میں بنایا گیا مگرسوائے خطوط بازی کے اورکوئی کام نہیں ہوا حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ لینگوئج پالیسی بنائی جاتی نہیں بنائی گئی اس وقت ادارے میں صرف ادبی فنکشن کیے جاتے ہیں اور نفاذ اردو کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابرہیں اس ادارے کی تباہی کا باعث وہ لوگ بھی ہیں جن کو خلاف میرٹ موجودہ ڈائریکٹرجنرل نے اپنے سابقہ دورمیں بھرتی کیاگیا ان میں ڈاکٹرراشد حمیدجو لیکچرر ہیں کو بطورڈپٹی سیکریٹری بھرتی کرلیا گیا جن کے پاس ریگولر انتظامی امورکا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں تھا۔

جبکہ اس عہدہ کے لیے کم ازکم انتظامی امورکا بارہ سالہ تجربہ درکار تھا صفرتجربہ والے کو بھرتی کرلیا گیا ادارے کے اندرایک آسامی لینگوئج ڈویلپرکی ہے جس پرجناب صفدررشید صاحب تقریباً سات سال براجمان رہے مگرآج تک زبان کیا ایک لفظ تک ڈویلپ نہیں کرسکے اورآج یہ آسامی خالی ہے اور اس پرمختلف چہیتے ملازمین کی عارضی تقرری کرکے فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور اس عارضی تقرری میں بنیادی قواعد کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا مثلاً تعلیم، سروس، کیڈر وغیرہ اسی طرح اور خالی سیٹوں پر عارضی تقرریاں بھی ادارے میں ناسوربن چکی ہیں اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری کو گریڈاٹھارہ کی سیٹ پر ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات کررکھا ہے،اکاوئنٹنٹ کو ڈپٹی ڈائریکٹرآئی ٹی کا اضافی چارج درکھا ہے اے پی ایس کو افسرانتظامی گریڈ سترہ بنایا ہوا ہے جبکہ افسرانتظامی کی سیٹ ہی ادارے میں موجود نہیں ہے اور اگر کوئی درد دل رکھنے والا ملازم ان نانصافیوں پر بولے تو اسے فوراً ملازمت سے فارغ کردیتے ہیں پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ادارہ میں ملازمین کو رکھا جارہا ہے بہت سے لوگوں کو بلاوجہ فارغ کیا جاتارہا ہے۔

ایک ملازمہ کو اس کے باپ کی وفات پرنوکری سے نکال دیاگیا جسکو بعد میں عدالتوں کے زریعے بحال ہوتے ہوتے کئی سال لگ گئے موجودہ ڈائریکٹرجنرل نے ایک ڈرائیور پاگل قرار دے کرملازمت سے فارخ کردیا تھا جو بیچارہ پانچ سال تک دھکے کھا کربحال ہوا۔ موجودہ ڈائریکٹرجنرل نے ادارے کے جدید اور اہم پراجیکٹس مثلاً عظیم کتب کی ترجمہ کاری کا پراجیکٹ بند اور انسٹیٹیوٹ برائے اردو اطلاعیات کی منظورشدہ رقوم بھی حکومت کو واپس کردیں اس بنیادپرکی پراجیکٹ ڈائریکٹرنے انہیں بائی پاس کیا حالانکہ یہ بات درست نہ تھی مگرایسے پراجیکٹ کوختم کردیا گیا جس پرپہلے کروڑوں روپے خرچ ہوچکے تھے اپنی ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا گراس منصوبہ پرعملدرآمد ہوجاتا توآج نفاذاردو کا مسئلہ ویسے ہی کسی حد تک ختم ہوچکا ہوتا اس پراجیکٹ کے پہلے خرچ کیے گئے کروڑوں روپے ضائع ہوگئے۔

کوئی ڈیڑھ سال بعد ادارہ فروغ قومی زبان میں ایک شعبہ اردو اطلاعیات بنایا گیا جس میں دس ملازمین کو خلاف میرٹ بھرتی کیا گیا ان ملازمین نے اپنی بھرتی سے لے کرآج تک یعنی تقریباً دس سالوں میں ایک ٹکے کا کام نہیں کیا جو ملکی معیشت پرایک بوجھ بھی ہیں اور قابل لوگوں کے حق مارنے کے ساتھ ملکی کام کھٹائی میں ڈال رکھا ہے اس ادارہ میں تیس تیس سال سے ملازمین اپنی ترقی کے لیے ترس رہے ہیں سربراہان نے آج تک ملازمین کے ترقی کے قواعد و ضوابط بنانے کی مناسب کوشش ہی نہیں کی ایک دو سال بعد ابہام زدہ اور صرف چند چہیتوں کی ترقی کے اصول بناکربھیج دیے جاتے ہیں جن کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نظرانداز کردیتی ہے ملازمین کو ترقی کا صرف لولی پوپ دیا جاتا ہے ادارے میں کافی عرصے سے اکاونٹ افسرنہیں ہے جس کی ذمہ داریاں ایک اکاونٹنٹ نبھا رہا ہے جس پرجعلی بل بنانے، لوگوں سے رشوت لینے، جعلی اور خفیہ طریقے سے سرکاری اکاونٹ کھولے رکھے جانے کا الزام اور اس میں غیرقانونی رقوم کی منتقلی اور ڈائریکٹرجنرل کی ادبی تقریبات کے لیے ادارے کی اشیاء کی باربارمرمت کے نام پرجعلی بلوں کے ساتھ ساتھ ہرسال کئی کئی اعزازیے لینے کا الزام ہے ادارے کے ملازمین چاہتے ہیں کہ ادارے کا آڈٹ کروایا جائے، مستقل اکاونٹ افیسرکی تعیناتی کی جائے، سامان کا آڈٹ کروایا جائے تاکہ جعلی ڈگریوں والوں اور جعلی بلوں والوں کا احتساب ہو سکے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر