تحریر : عثمان غنی ادارے اہم ہوا کرتے ہیں افراد نہیں، ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں، غلام ذہن آزاد ترجیحات کا تعین نہیں کر سکتے، درویش نے کہا تھا علم نگاہ سے ملتا ہے کتاب سے نہیں، باقی سب فسانے ہیں کہانیاں ہیں، حکم ہوا تھا اے عمر! ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا، بقول ڈاکٹر ابرار عمر۔۔۔
اس کا غم اور میرا اپنا غم ایک کمرا بنا تھا کمرے میں
خوش فہمیوں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ایک طرف منیر نیازی کی طرح ”عمر میری تھی مگر اسکو بسر اس نے کیا ”پر لبیک کہتے ہوئے اپنی عمر کو کسی ”اور” کے بسر کرنے کا یقین کر لیتے ہیں اور دوسری طرف ہر بڑی سیٹ پر بیٹھا شخص یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ اس کرسی سے فارغ البال اورفارغ الحال ہو گا تو نجانے کہیں وہ ادارہ تباہ ہی نہ ہو جائے کیونکہ اس کی آبیاری تو ان صاحب نے اپنے لہو سے کی ہے لہذا اگر انہیں وقت مقررہ پر گھر جانا پڑ گیا تو کہیں خدا ناخواستہ زمین اپنی سطح سے کہیں اونچی نہ ہو جائے اور تباہی آجا ئے یا پھر آسمان اپنے بلندی سے کہیں نیچے آنے کی کوشش نہ کر ڈالے، کہیں فطرت کے اصول نہ بدل جائیں یہ بھی ممکن ہے سورج کے طلوع ہونے کامنظر مشرق کے بجائے مغرب سے چشم فلک نہ دیکھ بیٹھے ،کہیں دریاؤں کی روانی کا رخ نہ بدل جائے، کہیں سورج روشنی کی بجائے اندھیرا نہ بانٹنے لگ جائے، کہیں ہوا باد مخالف نہ چل پڑے، کہیں گلاب کی خوشبو اپنا اثر نہ کھو بیٹھے ،کہیں چاند ،تارے رات کو بھی ہمیں نظر نہ آ شروع ہو جائیں یا پھر بلبل !گل سے ہمکلام ہونا نہ چھوڑ بیٹھے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی فارغ البال ہوئے تم مجھے دیکر بوسا ابھی سو طرح کا ہے آپ سے دعویٰ باقی
Musical-chairگیم کی بے شمار کہانیاں ہیں کرسی کے چکر میں ہم نے آدھا ملک کھو دیا تھا،مگر یہ طوفان بدتمیزی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ،تاریخ کی کتابیں سیاہ ہو چکیں ہیں مگر اقتدار سے چمٹے رہنے کے باب ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، کشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ کارنامہ و اقعتاً کسی معرکے سے کم نہیں کہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی مظفرآباد اور میرپور میں دو میڈیکل کالجوں کی Immediatelyداغ بیل ڈال دی تھی۔
ہمارے ہاں تنقیدی زیادہ لکھا جاتا ہے تعریفی نہیں درآں حالیکہ بات یہ ہے کہ تنقید کا حق اُسے ہی حاصل ہے جو تعریف کرنا بھی جانتا ہو مگر اسی بھٹو کی پارٹی نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا جس برق رفتاری سے جال بچھانے میں ملک و قوم کی ”خدمت ”کی اسکا اجر انہیں شایدآزادکشمیر اور پنجاب کے انتخابات میں نظر بھی آگیا اس ”کارخیر ”میں ڈاکٹر عاصم نے شبانہ روز محنت کی اب Change Of Stick کے بعد بعض تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ انہیں سندھ پیپلزپارٹی کا صدر” انہیں ”سبق سیکھانے کے لیے بنایا گیا ہے منیر نیازی نے کہا تھا، اک واری جدوں شروع ہو جاوے۔۔ گل فیر ایویں مکدی نیں، بہر حال پیپلزپارٹی قصہ پارینہ ہوچکی بات کشمیر میں قائم میڈیکل کالجوں کی ہو رہی تھی انکے قائم کرنے کا مقصد کشمیر کے باسیوں کو کشمیر میں ہی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنے تھے ساتھ ہی ہیلتھ سیکٹر کو بھی فعال کرنا تھا۔
AJK Medical College
آزادکشمیر جیسے آزادی کشمیر کا Base-Campکہا جاتا ہے آزادکشمیر میں قائم میڈیکل کالجوں میں اس پار کے کشمیری بھائیوں کیلئے کچھ سیٹیں مختص کرنا احسن فیصلہ تھا اب کالج اپنے پانچ سال پورے کرنے کو ہیں مگر مسائل کم ہونے کے بجائے ”زلف یار” کی طرح دراز ہوتے جارہے ہیں ،عملہ تنخواہیں نہ ملنے پر نوحہ کناں ہے طلباء مقرر وقت پر امتحانات نہ ہونے کی وجہ سے سیخ پا ہیں ،بینظیر میڈیکل کالج میرپور کے اپنے الگ Teachingہسپتال کی تعمیر” وہ کہیں اور سنا کرے کوئی” والا معاملہ ہو چکا ہے فنڈز کی عدم دستیابی اور انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی و غفلت بڑا سوالیہ نشان ہے اس کالج کے حالات آئے روز بگڑتے کیوں جا رہے ہیں بلاول بھٹو زرداری نے میرپور کے جلسے میں اس کے یونیورسٹی ہونے کا سنگ بنیاد رکھا تھا مگر زرائع کے مطابق موجودہ حکومت میڈیکل یونیورسٹی کے قیام میں سنجیدہ نہیں،آزادکشمیر میں تیسرا میڈیکل کالج اس وقت کے صدر ریاست سردار یعقوب کے پونچھ سے تعلق ہونے کی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر اُس ضلع میں قائم کیا گیا تھا ان تینوں میڈیکل کالجوں کے امتحانات آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی مظفرآباد منعقد کرواتی ہے مگر پہلے تو امتحانات وقت مقرر پر ہو نہیں پاتے اور پھر اُنکے نتائج کا اعلان بھی بہت تاخیر سے کیا جاتا ہے Need Of Hourیہی تھی کہ ان کالجوں کو UHSکے ساتھ منسلک کر دیا جاتا تو گو نا گوں مسائل سے بچا جا سکتا تھا امتحانات بھی ایک سیٹ شیڈول کے تحت ہوتے اور نتائج بھی بروقت آتے، اس دفعہ امتحانات تو وقت پر شروع ہو گئے مگر عین منجد ھار میں کسی” فنی وجوہات” کی وجہ سے روک دیے گئے ہیں طلباء یونیورسٹی کے اس فیصلے پر شدید ذہنی کوفت کا شکار ہیں بقول فیض صاحب۔۔۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل،کب رات بسر ہو گی سنتے تھے وہ آئیں گے،سنتے تھے سحر ہو گئی
آزادکشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اپنی اصول پرستی کی وجہ سے مشہور ہیں انہیں چاہیے کہ وفاق میں جہاں ان کی اپنی جماعت ن لیگ کی حکومت ہے،مالی مسائل سے آگاہ کر کے کالجوں کو فنڈز کے متعلق درپیش مسائل سے نجات دلائی جائے ورنہ بقول شاعر۔۔۔۔۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے،درد لا دوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
میرے خیال میں سب سے پہلے 1۔UHSکیساتھ کالجوں کو Affiliateکیا جائے،2۔پورے سال کیلئے ضرورت کے مطابق باقی اداروں کی طرح بجٹ مختص کیا جائے3۔کالج کے فوری مسائل کے حل کیلئے حکومتی و انتظامی سطح پر ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے 4۔Clinical-Sideکو درپیش مسائل سے نجات دلائی جائے اگر طلباء امتحانات و نتائج میں تاخیر کی وجہ سے پریشان ہیں معزز اور قابل قدر اساتذہ اور عملے کو تنخواہیں نہیں مل رہیں کلینیکل سائیڈ کے مسائل اپنی جگہ پر بہر حال موجود ہیں تو اداروں کے سربراہان اور ریاست کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے یہ بات پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ جس طرح حکومت کے پاس مسئلہ کشمیر پر کوئی ٹھوس اور جامع پالیسی نہیں اسی طرح ان میڈیکل کالجوں کے بہتر مستقبل کیلئے بھی مؤثرپلاننگ کا فقدان ہے کیونکہ ماضی میں ہمیشہ مسائل کی Permanant-Treatmentکے بجائے صرف جعلی Pain-Killerسے سہارا لیا جاتا رہا ہے، فی الحال بے چارے طلباء کے دردوں کا مداوا ہوتا نظر نہیں آرہا اور Final-Yearکے طلباء جن کے امتحانات 14دسمبر سے شروع ہونا تھے وہ بھی ملتوی ہو چکے ہیں ان کے امتحانات کب ہونگے اور کب یہ پہلا بیچ فارغ التحصیل ہو گا ،کب ان کے ہاتھوں میں ڈگریاں تھمائی جائیں گی ان کی نوکریوں کیلئے ریاست کے پاس کیا حکمت عملی ہے کسی کو کچھ پتا نہیں۔کاش میرا تجزیہ غلط ہو اور مجھے اس کی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے مگر دبے لفظوں میں فی الحال یہ لکھنے پر مجبور ہوں۔