تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان جمہوری معاشرے میں سیاسی شخصیات کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے۔ہر جمہوری ملک میں حزب اختلاف ہوتی ہے اور اس کا کام حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنا ، عوام کی فلاح و بہبود کی پالیسیوں کا خیال رکھنا، حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنا ہوتا ہے تاکہ معاملات درست سمت میں چلائے جا سکیں۔ مگر پاکستان میں سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر کڑی تنقید گزشتہ چند ماہ سے انتہاء پسندی کی حدوں کو چھورہی ہے جہاں ایک دوسرے پر تنقید سے زیادہ ایک دوسرے کی کھال کھینچتے اور ایک دوسرے کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال نظر آتے ہیں، جبکہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے میں با شعور لوگ اس طرح کا روئیہ نہیں رکھتے۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سیاست دان ملکی اداروں ، اور ادارے ایک دوسرے پر کھلے اور دبے لفظوں میں تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ سیاست دانوں اور ملکی اداروں کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا ملکی سلامتی کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے جس کا جمہوری طریقہء کار سے دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت وزارت عظمیٰ سے اپنی سبکدوشی کے بعد ہر جگہ استفسار کرتے ہیں تو ان کا اشارہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آڑ میں درحقیقت مقتدر قوتوں کی جانب ہوتا ہے ۔ اس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نا اہلیت کے فیصلے سے لے کر اب تک ملکی عدالتیں جن میں لاہور ہائی کورٹ ،نیب اور پاکستان کی عدالت عظمیٰ بھی شامل ہے بہ نسبت عام آدمی کے معاملات کے سیاسی لیڈرز،سیاسی پارٹیز اورعوام کے چنے ہوئے وزراء کی کرپشن اور اہلیت و نا اہلیت کے معاملات میں زیادہ الجھی ہوئی دیکھائی دیتی ہے، جبکہ ملکی اداروں میں اختیارات کی سرد جنگ نظر آتی ہے۔
اگر تمام ادارے اپنی حدود وقیود میں رہ کر فرائض ادا کررہے ہوں تو بھلا اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے جبکہ سسٹم کا استحکام بھی تمام اداروں کے اپنی حدود و قیود کے اندر رہنے سے ہی ممکن ہے۔ اس تناظر میں ملک و قوم کے مفاد میں یہی ہے کہ قومی ترقی و سلامتی کیلئے جس قومی ادارے کی جو قانونی ذمہ داری ہے وہ جانفشانی کے ساتھ اپنی اس ذمہ داری کوادا کرتا نظر آئے۔
آج سسٹم کے استحکام اور عدم استحکام کے حوالے سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس کا پس منظر یقیناًموجود ہے، لگتا ہے کہ سب ہی جگہ مختلف قسم کی خرابیاں موجود ہیں۔ ملک مشکل حالات سے دوچار ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ مل کر کوئی حل تلاش کیا جائے؟ سیاستدان اپنے اپنے رویوں اور کردار کا جائزہ لیں، دوسرے ادارے اپنا، سب مل بیٹھیں، کھلے دل سے معاملات کو ٹھیک کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، مل جل کر دیکھیں کہ غلطیاں کہاں ہوئی ہیں، کس سے ہوئی ہیں، کون اپنی حدود سے نکل گیا ہے،کس نے دوسرے کے اختیارات کم کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ مستقبل کے لئے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔
ہر ادارہ اپنے اختیارات اپنی حدود میں رہ کر استعمال کرے۔ فوج اپنے روئیہ کا جائزہ لے، سول اپنے معاملات دیکھیں،اور عدلیہ اس بات کا خیال رکھے کہ بلا امتیاز انصاف قائم ہو اور کوئی عدلیہ کے کسی عمل پر انگلی نہ اٹھاسکے۔مملکت خداداد کو اسوقت غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے جہا ں پاکستان کا دشمن تو شر انگیزیاں پھیلا ہی رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر کا سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو چاہے بے شمار بیرونی خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہو اگر اس کے تمام انتظامی ، سکیورٹی اور حکومتی اداروں میں ہم آہنگی اور اتفاق موجود ہو تو وہ ملک تمام حالات کا دلیری سے مقابلہ کر سکتا ہے۔
اگر ہم قیام پاکستان سے لے کر2017ء تک اپنی سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو ہماری سیاست کی بنیاداقتدار کی رسہ کشی سے شروع ہو کر کھوکھلے جذباتی نعروں سے آگے نہیں بڑھ پائی، کبھی جمہوریت ، کبھی آمریت یعنی سول اور ملٹری تعلقات میں ٹکراؤ کی ایک طو یل داستان ہے۔
جبکہ یہاں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے عوام کو خوب لوٹا اور اپنی نااہلی اور بددیانتی کی بدولت ملک کو بحرانوں کا شکار کردیا ، اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ملکی خود مختاری کو داؤ پر لگا کر قوم کو لاشوں کے تحفے دئیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مملکت خدادادکی نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اختلافات کو بھلاتے ہوئے ملکی مفادات میں فیصلے کئے جائیں، اداروں کے درمیان مثالی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور تمام اداروں پر تنقید سے اجتناب برتتے ہوئے پیداشدہ کشیدگی اور محاذ آرائیاں ختم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ملک انتشار کی بجائی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔