اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ، چیف جسٹس ناصر الملک

Nasir ul Mulk

Nasir ul Mulk

اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ، دیکھ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل بینچ نے 18 ویں و 21 ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سماعت میں لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا اہم نکتہ ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر آپ کو قبول ہوگا کیا اس صورت میں اختیارات کی تقسیم متاثر نہیں ہوگی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین میں ایسی ترامیم کیوں نہیں لاتے جو ہمارے حالات کے مطابق ہو، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ججز پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے، یہ بھی بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے۔ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے ترمیم ہوگی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے۔ دیکھ رہے ہیں کہ ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں۔

حامد خان کے بعد بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے 18 ویں ترمیم میں عبوری حکم دیا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ نے 19 ویں ترمیم منظور کی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے 19 ویں ترمیم جبراً منظور کرائی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عبوری حکومت میں پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں تجویز دی تھی، بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے باعث اداروں میں جنگ ہوئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اداروں میں کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔