آج کے ایک سیاسی رہنما بلی کے ہاتھوں چھینکا ٹوٹنے پر آپے سے باہر ہوےجارہے۔ کہ گویا پاکستان کا اقتدار ان کے ہاتھو ں اب آیا کہ جب آیا!! انکے ماضی کے سیاسی طرزِ عمل اور کردادار سے بھی ساری قوم واقف تھی مگر انکے مصنوئی نعروں کی گونج میں قوم کے کئی طبقات نے ان کو سچا جان کر ان کےہاتھون میں ہاتھ دیا۔ جس کے نتیجے میں نواز شریف کی مہر بانیوں سے انکےہاتھوں خیبر پختونخواہ کا اقتدار لگ گیا۔خیبر پختونخواہ کے اقتدار نے ہیان کی سچائی کی قلعئی کھول کے رکھ دی ۔کئی لوگ جون ان پر جان نثار کرنےکو تیار تھے ان کی دھاندھلیوں کا پردہ چاک کرنے میں مصروف ہوگئے۔ جو مسلسل عمران خان پر عدم اعتماد کا بر ملااظہار کرتے دیکھے گئے۔خیبر پختونخواہکے عوام ان کی اور جماعت اسلامی کی حکومت سے تھوڑے ہی دنوں میں نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان سیاست کے میدان میں مسلسل قلابازیوں کے عادی ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑنے کے بعدامریکہ کی مخالفت کرناشروع کردی تھی اور قوم کو اعتماد میں لینے کی غرض سے نیٹو سپلائی کے خلافان کے ڈرامائی اقدمات ساری قوم نے دیکھے۔ آخر میں امریکی ا سٹابلشمنٹ کے اشارے ملتے ہی انہوں اسی میدان میں قوم کو نرغے میں لینے کی غرض نیٹو سپلائی کے راستے بھی روکے اور راستوں میں ڈیرے بھی ڈالے مگر آ خرِ کارانہیں اپنے مصنوعی اقدامات سے پھر رجوع کرنا پڑا کیونکہ ان کا اور جنرل کریسی کا امریکی ایجنڈا ایک ہی ہے۔
الیکشن سے قبل ہم بھی ان کے ابتدائی سیاسی نعروں کے سحر میں آیا چاہتے تھے۔ مگر اُن کے بعد کے سخت ترین روئے اور لب و لہجہ نے ہمیںاپنی پچھلی سوچ سے رجوع کرنے کو کہا اور ہم سخت گیر اور اڑیل لیڈرشپ کے سحر سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اندر سے ایسا لگتا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے مخالفین میں سے نہ تھے بلکہ جاننے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ” وہ بھی پرویز مشرف کی باقیات میں سے ہی ہیں“عمران خان پرویز مشرف کے ساتھ اس کی آمریت کا حصہ 2002 سے 2007 تک رہے اور فوجی آمریت سے چمٹے رہے۔جو جمہوریت کا قاتل تھااور ہمیشہ سے جمہوری کلچر کا شدید مخالف تھا۔
وہ ایسا آمر تھا جو اپنے جیسے یا اپنے سے بڑے آمر کوبرداشت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرف دور میں وزارت عظمیٰ کی ہُما ان کے کان پر پر مارکر یہ جا، وہ جا یہ عہدہ ان کے ہاتھوں میں دئیے جانے سے پہلے ہی اُن سے چھین لیا گیا۔ پرویز مشرف انہیں اٹھانا چاہتے تھے۔ کیونکہ ایک تو وہ ان کے مذہبی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرے ےہ کہ اُس وقت تک وہ کوئی سیاسی فیگر نہ تھے۔ اس ماحول میں عمران خان اپنا کلیجہ مسوس کے رہ گئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ بعد کے دنوں میں اُن کے بیانات کی وجہ سے اُن کی سونامی کا حصہ تو بنے مگر انہیں بھی اخروٹ لب و لہجہ اختیار کرنا پڑ گیا ہے یا جو نفاست پسند تھے وہ ان سے کنارا کشی اختیار کر گئے۔ی۹ہ بات ساری قوم جانتی ہے کہ یہ خود بھی سیاسی میدان میں بوٹوں کی پیداوار ہیں۔ بھاری بوٹ یہ بات سمجھ چکا تھا کہ( اُس دور میں)فی الوقت یہ کندھے وزارت عظمیٰ کا بوجھ سنبھالنے کے اہل ہی نہ تھے یہی وجہ تھی کہ اس نے اس کو اپنی کابینہ میں تو شامل رکھا مگر وزارت عظمیٰ ایک imported شخص کی جھولی میں ڈالنے کے ساتھ ہی جعلی ریفرنڈم میں دھاندھلی خان کی مکمل تائید و حمایت سے اپنا کام جاری رکھا۔
ان کی سیاست کی ابتدا ہی آمریت تھی اور ان کی سیاست کی انتہا بھی مخسوس ہوتا آمریت ہی ہوگی۔اقتدار کے ایوانوں سے جب انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا کہ آپ ابھی مزید اپنی تربیت مکمل کرلیں تو پھر ہم سے رجوع کرنا۔اس کے بعد جو مارشل لاءکی برائیاںگنوئیںکہ لگتا تھا جمہوریت کا ان سے بڑا کوئی حامی ہے نہیں!!!آمریت کی یہ برائیاںانہیں اس سے پہلے کبھی نظرنہیں آئی تھیں۔ اب تو جمہوریت ہی کی خوبیاں تھیں اور آمریت کی تو جیسے موصوف نے کبھی حمایت ہی نہ کی تھی!مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ گرم گرم کھانے کے عادی ہیں ۔جس سے ان کی ہر چیز جھلس جاتی ہے اور لب ولہجے میں کرختگی آجاتی ہے۔
Taliban
اب تو طالبان ان کے ہیرو ٹہرے اور امریکہ اور امریکی تنخواہ دار وں کی تمام برائیاں ان پر جیسے آشکارا ہوچکی تھیں۔کل سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ان کے ہیرو تھے وقت گذرنے کے ساتھ وہ ان کے مفادات کے قاتل بن گئے۔کل تک ان کی تعریف و توصیف میں موصوف زمین آسمان کے کلابے ملاتے تھکتے نہیںتھے۔ آج ایک سال کے بعد انہیں احساس ہوگیا ہے کہ 2013 کے الیکشن میں انہیںافتخار چوہدری نے ہر وا ےا تھا۔
یہ اتنے معصوم ہیں کہ انہیںیہ پتہ ہی نہیں ہے کہ الکشن کمیشن انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہوتا ہے،عدلیہ اس کام کی ذمہ دار نہیں ہوتی ہے۔جو ججز کو الیکشن کے انعقاد کے لئے عدلیہ سے مستعار لے کر اپنا کام ان کو ریٹرننگ افسران بنا کر کرواتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کے کالج و اسکول کے اساتذہ کو پرزائڈنگ آفیسر اور دیگر عہدے دے کر کام مکمل کیا جاتا ہے۔ 2012میں اینٹی ڈرون پالیسی کا عمران خان نے اعلان تو کیا مگر کہیں بھی بھرپور کاروئی اس ضمن میں سوائے نعرے بازیوں کے دیکھنے میںنا آئی۔
کراچی میں بھی انہوں نے اس ضمن میں ایک ڈرامائی احتجاج شروع کیا تھا اور نیٹو سپلائی روکنے کا جھانسہ قوم کو دیا تھا۔اُس سڑک پر ان کا جلسہ چل رہا تھا جہاں سے عوام کو لیکر W11گذرتی تھی یہ عوامی شاہرہ بلاک کر کے عوام کی روزی روٹی کے دروازے تو بند کئے گئے مگر برابر کی ہی کی سڑک سے دھڑلے کے ساتھ نیٹو سپلائی کے کارواں گذر رہے تھے انہیں روکنے کے جھانسے کے باوجود کہیں روکا نہیں گیا۔گویا سیاست کے میدان میں وہ بھی کراچی کے عوام کو ،کھلی آنکھوں دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی۔کراچی کے برگر گروپ نے جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں ا نہیں نعروں کی زد میں آخر ایک سیٹ پر کامیابی عطا کر دی تھی۔ ہم آج یہ بات دعوے سے کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ کراچی سے کوئی ایک بھی سیٹ جیتنے کے اہل نہ ہونگے۔جس کی گوہی آنے ولا وقت دے گا۔
شروع میں تو ہم سمجھتے تھے کہ عمران خان جنرل پرویز مشرف کے شدید مخالف ہیں اور وہ ملک میں کوئی واقعئی انقلابی تبدیلی لانے کے خواہشمندہیں ان کے لب و لہجہ سے بھی کچھ کچھ سچائی کا گمان ہوتا تھا۔پھر قوم انہیں ایک دوسرے حوالے” کرکٹ “سے بھی اپنا ہیرو مانتی تھی گوکہ ان کی گالی گفتار اور لب و لہجے سے اُن کے خوشامدیوں کے علاوہ اُس وقت بھی سب ہی پریشان رہتے تھے۔قوم سجھتی تھی کہ ماضی کی غلطیوں کو بھول کر اب وہ ایک قومی رہنما کے طور پر نمودار ہورہے ہیںاور ان کا ماضی کا سخت رویہءاور لب و لہجہ اب تبدیل ہو چکا ہوگا مگر جب اُن کے بیانات اور لب و لہجہ پر لوگوں نے غور کیاتو پتہ چلا کے سونامی کے زعوم میں اُن کا لب ولہجہ اور اور بھی شدت اختیار کر چکا ہے ۔در گذر اور ٹولرینس کا کہیں دور تک بھی شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔
در اصل یہ جمہوریت کو چلنے نہ دینے کے شائد راستے تلاش کر رہے ہیں۔حالات و وقعات عمران خان کولوگ قومی ہیرو کے بجائےجمہوریت کی رکاوٹ محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات کے خلاف بات کر کے وہ کوئی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں تو یہ اُن کی بھول ہے ۔اُن کا ایک انوکھا موقف قومی مفادات کے خلاف بھی قوم سن چکی ہے۔
جو کل تک طالبان سے مذاکرات کی بات کیا کرتا تھا آج طالبان کا دشمن نمبر ون بنا ہوا ہے۔وہ آج ان کے خاتمے کی باتیں کر رہا ہے۔جو امریکی جنگ سے باہر نکلنے کی باتیں کیا کرتا تھا آج امریکی حواریوں کی کاسہ لیسی میں منہمک ہے۔سیاست دان کو بوٹوں کی پالش سے گریز کرنا چاہئے مگر وہ سیاست دان جنہیں جمہوریت میں کوئی چارم نظر نہیں آتا ہے ۔وہ بوٹ پالش کو ہی ترجیح دیتے ہیں جنرل شریف نے توقانون اور آئین پر عمل داری کی بات کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں۔ مگر کیا کوئی اس بات کی وضاحت کرے گا کہ پرویز مشرف ایسے جمہوریت کے قاتل کی حفاظت بعض امریکی نواز کس آئین کے تحت کر رہے ہیں در اصل ا یسے ہی لوگ اس ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے تانے بانے بنانے میں مصروف ہیں جنکا آلہ کار مسٹر دھاندلی بنے ہوے ہیں۔یہ جمہوریت جمہوریت کی گرداان تو لگائے ہوے ہیں مگر در پردہ ان کی کوشش جمہوریت کو ڈی ریل کرنا ہے۔شائد وہ اس امید پر زندہ ہیں کہ جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے پر شائد انہیں وزارت عظمیٰ تھالی میں رکھ کر پیش کردی جائے گی۔
کل تک یہ میڈیا کی آزادی کا راگ الاپ رہے تھے اور جیو کی تعریفوں میں آگے آگے ہوا کرتے تھے کبھی اس کے ساتھ رفاحی کاموں میں شریک ہوتے تو کبھی اس کے وارے نیارے جاتے مگر آج ان کا ہدف یہ میڈیا شائد اس وجہ سے بن گیا ہے کہ انہیں گمان پید ا ہوگیا ہے کہ میڈیا کو انڈر مائین کرنے کے بعد یہاں بوٹوں کی آواز کو دبانے کی باتکوئی بھی نہیں کرے گا اور پھر ان کےوارے نیارے ہوجائیں گے۔ جس شخص کے قول و فعل میں اس قدر کھلا تضاد ہو وہ بوٹوں کے بل پر تو پاکستان کے اقتدار پر قابض ہو سکتا ہے مگر عوام کے ووٹوں سے وہ کبھی بھی ایوان اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے۔ لہٰذاہمار کہنا ہے کہ ادروں کی جنگ لڑنے والے سیاست میں کامیاب ر نہیںہوتے ہیں۔ 11مئی کو مسٹر کینیڈا اور مسٹر دھاندھلی اکٹھا ہو کر طالع آزماﺅں کو دعوت دینے کا پروگرام لے کر آرہے ہیں اور اسلام آباد میں دھرنا دھرنا کھیلیں گے۔
Shabbir Khurshid
تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com