اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں ایک طالب کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔
عمران خان نے جمعہ کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ وہ 23 سالہ طالب علم کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے قابل مذمت واقعہ پر خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل پولیس سے رابطے میں ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سخت کارروائی کی ضرورت ہے ’’جنگل کا قانون نہیں چل سکتا۔‘‘
تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت ہے۔
صوبے میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف کے کئی دیگر سینیئر قائدین کے علاوہ ملک میں کئی دیگر حلقوں کی طرف سے مشعال خان کو اس طرح ہلاک کرنے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کو توہین مذہب کے الزام پر اُس کے ساتھی طالب علموں نے جمعرات کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
مشعال خان کا تعلق ضلع صوابی کے علاقے زیدا سے تھا، جہاں جمعہ کو اُن کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی، جس میں اطلاعات کے مطابق لگ بھگ 500 افراد نے شرکت کی۔
مشعال خان کی اس طرح ہلاکت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد انتظامیہ نے عبدالولی خان یونیورسٹی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی ایک موقر تنظیم ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توہین مذہب سے متعلق قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے پہلے بھی بات کی جاتی رہے ہیں، لیکن اس بارے میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔
’’(توہین مذہب کے الزامات پر) گیارہ سو مقدمات ابھی تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں ۔۔۔ جتنی سزائیں ہوئی ہیں اب تک اس میں سے کسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا لیکن بہت سے لوگ جن پر یہ الزام لگا وہ جیل میں یا جیل سے باہر تھانے میں یا سڑک پر مارے جا چکے ہیں۔‘‘
ایک مذہبی رہنما مولانا راغب نعیمی کہتے ہیں کہ مردان میں پیش آنے والے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے رویے بڑھ رہے ہیں۔
اُدھر مردان پولیس کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جب کہ متعدد طالب علموں کو تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کو سینکڑوں طالب علموں نے مشعال خان اور اُس کے دو ساتھیوں کو ہوسٹل کی عمارت میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے مشعال خان ہلاک جب کہ دو دیگر طالب علم زخمی ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق مشتعل طالب علم مشعال خان کی لاش کو جلانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی اطلاع پر پولیس موقع پر پہنچ گئی اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
پاکستان میں توہین مذہب کا الزام ایک حساس معاملہ ہے اور محض الزامات کی بنا پر کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ توہین مذہب کے الزام میں سزا یافتہ کسی شخص کی سزائے موت پر تو عمل درآمد نہیں ہوا، لیکن محض توہین مذہب کے الزام پر ساٹھ سے زیادہ لوگوں کو تشدد کر کے ہلاک کیا جا چکا ہے۔