عقل و دانش کا کمال

Wisdom

Wisdom

تحریر: طارق حسین بٹ شان

اس کرہِ ارض پر انگنت مخلوقات آباد کی گئیں لیکن عقل و دانش اور فیصلہ سازی کی قوت صرف انسان کو عطا کی گئی ہے۔کیسا کمال ہو گیا کہ وہ جو خالقِ کائنات ہے اس نے اپنی مخلوق کو آزادانہ فیصلوں کا اختیار عطا کیا جو خود اس کے خلاف بغاوت پر اتر آنے سے دریغ نہیں کرتا۔کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی خالق اپنے فیصلو ں کی قوت اپنی مخلوق کو عطا کر دے اور پھر اس پر باز پرس بھی نہ کرے ؟اچھا برا،نکما،باغی اور ہتک آمیز فیصلہ کسی بھی انسان کے لئے برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن مالکِ ارض وسماء یہ سب کچھ دیکھتا ہے لیکن پھر بھی اپنے باغیوں سے کوئی باز پرس نہیں کرتا کیونکہ یہ اجازت نامہ اس نے خود ہی تو انسان کو تفویض کیا ہواہے۔اللہ تعالی نے شرک کی سخت ممانعت کر رکھی ہے اور اس فعل کے مرتکب کی سزا بڑی شدید رکھی ہے لیکن اس کے باوجود خدا صنم پرستی، اور شرک و بت پرستی کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن کسی کوکوئی تکلیف اور ز ک نہیں پہنچاتا کیونکہ آزادانہ فیصلوں کا اختیار اس نے خود ہی تو عطا کیا ہوا ہے۔قرآنِ حکیم میں رسول اللہ ۖ کی زبان سے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ( تمھارے لئے تمھاری راہ اور میرے لئے میری راہ ،)وقت خود فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر ہے اور کون گمراہی پر ہے ،وقت کا فیصلہ تو تاریخ میں رقم ہو گیا اور شرک و بت پرستی کے سارے بت ایک ایک کر کے زمین بوس ہو تے چلے گے لیکن انسان نے پھر بھی اللہ تعالی کی حاکمیت کو کلی طور پر تسلیم نہیں کیا۔سائنسدانوں کی تحریروں،تجربات ،فکر،سوچ اور فلسفے نے شکو ک و شبہات کو جنم دے کر انسان کو اپنے خالق سے دور کر درکھا ہے ۔،۔

آزادانہ فیصلوں کی اسی حکمت نے انسان کو اشرف المخلوقات کی مسند پر بٹھایا ۔یعنی باقی مخلوقات میں اسے ایک ایسی نوع سے تعبیر کیا گیا جس کے سامنے ساری انواع کو جھکنا پڑا ۔ایک زمانہ تھا کہ ڈائنا سور جیسی موذی انواع سے یہ دھر تی کانپتی تھی لیکن وقت کے جبر کے سامنے اسے بھی نیست و نابود ہو نا پڑا ۔اب ڈائنا سور کا نام و نشاں نہیں ملتا جبکہ انسان ترقی کی منازل طے کرتے کرتے سیاروں کی تسخیر کا قصد کئے ہوئے ہے ۔ خلا پر تسلط کی جنگ پورے زوروں پر ہے اور دنیا کی طاقتور اقوام اس عمل میں پیش پیش ہیں۔انسان نے اپنا موجودہ مقام اپنی عقل و دانش اور اپنی بصیرت سے حاصل کیا ہے ۔ خونخوار جانور اب اس کی اطاعت گزاری میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

دریائوں کی طغیانی اور درندوں کی ہیبت اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔کسی کو اس بات کا حتمی علم نہیں کہ انسان کی موجودہ ترقی اسے کس مقام تک لے جائے گی ؟ سائنسدانوں نے تو اپنی برق رفتار ترقی کی آڑ میں وجودِ خدا سے ہی انکار کر رکھا ہے لہذا یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ انسان نے والے وقتوں میں کونسا دعوی کرے گا اور خدا کے بارے میں اس کے نظریات و خیالات کس نہج پر ہوں گے۔؟ تاریخ کے صفحات ایسی انگت داستا نوں سے بھرے پڑے ہیں جہاں پر مستبد حکمرانوں نے خدائی دعوے کر نے کے بعد انسانوں کا اپنا غلام بنا لیا۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسے قدیم اور رجعت پسند کہہ کر اس سے جان چھڑانے کی کوشش کریں لیکن سطوتِ سلیمانی،ہیبتِ نمرود اور عہدِ فرعونی میں بھی لوگ اسی طرح تھے جیسے آجکل ہیں۔کوئی دور خود کو رجعت پسند نہیں کہتا بلکہ ہمیشہ خود کو جدید اور ترقی پسند کہتا ہے۔مادی ترقی کے لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ وہ اقوام پس ماندہ ہوں لیکن فکری اعتبار سے وہ بہت توانا اور دور اندیش تھیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر سقراط،افلا طو ن ، ارسطو، بقراط ابنِ عربی،ابنِ سینا ۔ابنِ رشد مو لانا روم ،کوپر نیکس،گلیلیو،مولانا روم ،شیکسپیر اور سعدی کے افکارو نظریات سے دینا آج مستفیذ نہ ہو رہی ہوتی ۔ گویا کہ فکری لحاظ سے کچھ اقوام انتہائی بلند مقام پر فائزتھیں ۔اشرافیہ کے خلاف جنگ اور انسانی حقوق کی باز آوری اور عدل و انصاف کی ترویج اس وقت بھی سب سے بڑا چیلنج تھا اور آج بھی دنیا اسی میں اٹکی ہوئی ہے ۔کمزور اقوام کو طاقتور اقوام اپنا غلام بنا رہی ہیں اور کوئی اس سے بغاوت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا ۔ کمزور اقوام کی عزت و آبرو اور آزادی جس طرح طاقتور اقوام کے پائوں تلے روندھی جاتی ہے اس کے ہم سب شاہد ہیں۔پاکستان خود اس کا سب سے بڑا شکار ہے۔آئی ایم ایف،یورپ اور امریکہ بہادر جس طرح ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ بقولِ اقبال،( تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے۔،۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات)

اگر ہم مختلف ممالک کی تہذ یب و تمدن اور اس کے رہن سہن کا عمیق نظر سے جا ئزہ لیں تو ہمیں یہ دیکھ ر بڑی حیرانی ہو گی کہ اکثر ممالک کارہن سہن اور بودو باش دوسرے ممالک سے بالکل مختلف ہو تی ہے ۔فنِ ثقافت اور رسم و رواج کی ایک دنیا ہے جو بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے ۔عرب ممالک کا اپنا کلچر ہے،ان کی اپنی موسیقی ہے اور ان کا پنا ابلاغ ہے۔صنم پرستی کے مارے ہوئے بھارت کا اپنا انداز ہے،پاکستان کی ثقافت اور تاریخ اپنے شاندار ماضی سے جڑی ہوئی ہے جس میں ہندووانہ رنگ اور انداز فکر بڑا نمایاں ہے۔ایران کا کلچر اور اس میںآتش بازی کاتڑکا ایک مختلف کہانی بیان کرتا ہے ۔جشنِ نو بہار ایک ایسا تہوار ہے جس میں پورے دس دن آگ کے الائو آتش پرستی کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔افغانستان کی تہذیب اپنی الگ پہچان رکھتی ہے ۔ہر انسانی قبیلہ اپنی نوع کا علیحدہ چلن رکھتا ہے۔پختونوں کی روائیتی مہمان نوازی کے علاوہ مذہب کی گہری چھاپ انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

طالبان کی جدو جہد سے تشکیل پانے والی ریاست اب بھی قدیم دورکی یاد لاتی ہے۔وہ قوانین جو جدید دنیا میں نا قابلِ عمل تصور کئے جاتے ہیں وہاں پر وہ بلا چون و چرا لاگو کئے جا رہے ہیں۔خواتین کے بارے میں ان کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔وہ جس طرح عورت کو تقدس اور توقیر دینے کا اعلان کر رہے ہیں عریانت کی دلدادہ اقوام ان کی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔امریکہ اور یورپی اقوام تو توقیرِ خواتین کی ساری حدود پھلانگ چکی ہیں۔ان کی نظر میں عورت شمع ِ محفل ہے اور اس سے اس کا یہ حق کوئی چھین نہیں سکتا۔ہم جنس پرستی اورعریانیت وہاں کا سکہ ر ائج الوقت ہے اور کسی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس کو چیلنج کرے ۔ساری دنیا دھیرے دھیرے اس کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے جسے مغربی تہذیب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔،۔

نوجوان نسل چونکہ خونِ گرم کی حامل ہوتی ہے اور اس کی نگاہ میں عورت کی کشش ناقابلِ بیان حد تک مسحور کن ہوتی ہے لہذا اسے مر دو زن کے اختلاط کا کلچر بھلا لگتا ہے۔ستم بالائے ستم اس کے ہاتھ میں ایسا آتشیں گولا دے دیا گیاجس نے اس کی جوان خواہشات کو لا محدود کر دیاہے۔اب وہ ہر قسم کی حد بندی سے بالا تر ہو گیا۔اسے تو خود بھی خبر نہیں کہ وہ ہلاکت کے کس اندھے کنویں میں گرنے والا ہے لیکن وہ کشا کش اس اندھے کنویں کی جانب لپک رہا ہے۔مذہب کی قوت،پندو نصاح اور اصلاحِ دین کا جنون بھی دھیرے دھیرے کمزور ہو تا جا رہا ہے۔وہ اندھے جذبات کے سامنے کسی کی نہیں سن رہا ،جو کچھ اس کے من میں آ تا ہے وہ کرتاجا تا ہے۔

مغرب اسے ماڈرن، ترقی پسند اور جدید یت کا لقب دے کر مزید ہو ا دے رہا ہے اور وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تندو تیز ہوا میں اڑتا چلاجا رہا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ دنیا محض حیو انی جذبات کی تسکین کی خاطر تخلیق نہیں ہوئی۔اس کا ایک مقصد اور مدعا ہے جسے خود خالقِ کائنات نے متعین کیا ہے اورجسے انبیاء و رسل نے اپنی جدو جہد سے انسانیت کے قلب میں اتارا ہے۔صوفیا کے ،مراقبوں،چلوں اور مشقتوں نے ان کے قلوب کو جس طرح مصفح کیا اورپھر انھوں نے اپنے اعمال و اقوال سے انسانیت کی راہنمائی جس طرح ایک ارفع و اعلی منزل کی جانب کی وہ شائد دھیمی پڑتی جا رہی ہے۔سوچ کے اس فرق سے ایک خلیج ہے جو مختلف اقوام کے درمیان قائم ہوتی ہوئی نظر رہی ہے ۔ لیکن کوئی کسی کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا کیونکہ اخالق کی طرف سے انسانوں کو فیصلوں کی مکمل آزادی تفویض کی گئی ہے۔،۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر: طارق حسین بٹ شان