تحریر : چوہدری غلام غوث نام عبداللہ ہے مگر میں اُسے پیار سے دانشور دُلّا کہتا ہوں لوئر مڈل پاس ہونے کے ساتھ سا تھ وہ نیم خواندہ دانشوروں کا امام ہے۔تین چار قومی روزناموں کے اداریوں اور کالموں کا مستقل قاری اور حالاتِ حاضرہ پر بے لاگ تبصرہ کرنے والا یہ نیم بوڑھا اپنی رائے دے کراُس پر ڈٹ جاتا ہے اس کی دی گئی دو آراء حال ہی میں کامیابی سے سو فیصد ہمکنار ہوئی ہیں وہ یکم نومبر کو میرے پاس آیا اور کہا کہ چوہدری صاحب 2نومبر کو عمران خان کے لاک ڈائون سے کچھ نہیں ہو گا یہ سب ہنگامہ خیزی اور پرنٹ میڈیا کا پرائم ٹائم حاصل کرنے کا فارمولا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں جس کا اندازہ مجھے 2 نومبر گزرنے کے بعد ہوا جبکہ 25 دسمبرکو وہ مجھے ملنے آیا تو کہا جناب 27 دسمبر کو پیپلز پارٹی سے بھی کچھ ہونے کی اُمید نہیں یہ اب مرحومہ و مغفورہ ہو چکی۔ لاکھ جتن کر کے بھی 27 دسمبر کو ان سے مانو بلی تھیلے سے باہر نہیں آ سکے گی۔
اس کا سادگی اور بے خوفی سے لبریز تبصرہ حیرا ن کُن طور پر دونوں بار سچ ثابت ہوا۔ وہ یہ رائے میرے جیسے خود ساختہ کالم نگار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم کے نیم خواندہ مُرید قسم کے دانشوروں تک بھی پہنچاتا ہے جسے وہ اپنا تھنک ٹینک سمجھتا ہے جبکہ موجودہ دُنیا کے جدید تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کبھی کبھار اُسے گلوبل ولیج کا نام بھی دے دیتا ہے۔ چونکہ دانشور دُلا یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان نیم خواندہ دانشوروں کا امام ہے اُس کی دلیل وہ اپنے چائے کے اڈے کو قرار دیتا ہے کہ میرا یہ چائے کا مئے خانہ ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر یہ نیم خواندہ دانشور خود تشریف لاتے ہیں اور آ کر چائے نوش کرتے ہیں جیسے مسافر ٹرین پر سوار ہونے کے لیے خود پلیٹ فارم پر جاتا ہے کبھی بھی ٹرین مسافر کو لینے گھر نہیں جاتی میں اُس کی روشن دلیل سے اتفاق کرتا ہوں اور دل سے اُسے دانشور دُلا سمجھتا ہوں۔وہ 23 مارچ کے تاریخی موقع پر میرے گھر تشریف لے آیا اور رونق بخشی اس تاریخی دن کے حوالے سے اُس نے خود ہی کرنٹ افیئرز کی دُنیا کا سب سے بڑا موضوع پانامہ لیکس چھیڑ دیا اور اپنا پُرانا موقف دہرایا ، دُلّا سمجھتا ہے ایک نیامت عُرف پاہ ناماں ہے جو کہ گاؤں کا چوہدری ہے جبکہ اُس نے اپنی حویلی کے سامنے ایک لکیر (لیک) لگا رکھی ہے جس کے دوسری جانب گائوں کے کمی کمینوں کی کمین گاہیں ہیں وہ اس غیر فطری تقسیم کو پاہ نامے کی لیکس کہتا ہے۔
اس کے سوا کچھ نہیں یہ اُس کا آخری اور اٹل فیصلہ ہے۔ اب اُس نے پانامہ لیکس کے متوقع عدالتی فیصلے کی گن گرج کے بارے میں بات چیت کی جو عدالت کے سینے میں ضمیر کی طرح محفوظ ہے۔ دانشور دُلے نے مجھ سے چند سوال کر دیئے جو کہ اُس کی فہم و فراست اور دُور اندیشی کا مُنہ بولتا ثبوت تھے۔ دانشور دُلے نے کہا کہ پانامہ لیکس کا عدالتی فیصلہ آ جانے کے بعد نواز شریف یا عمران خان کو جو بھی فائدہ حاصل ہو گا وہ سوائے سیاسی فائدے کے اور کچھ نہیں ہو گا اسی طرح ہر دو میں سے کسی ایک کو نقصان بھی ہو گا تو اُس کی نوعیت بھی خالص سیاسی ہو گی۔ اب وہ پوری طرح سنجیدہ ہو کر اور مجھے متفکر کر کے مخاطب ہوا خود ساختہ کالم نگار صاحب دُلے کو بتائیے کیا پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد اس ملک کی تاریخ اچانک تبدیل ہو جائے گی، عدالتی نظام کے مُردہ ڈھانچے میں جان پڑ جائے گی ،اور ہر عدالتی سائل کی داد رسی فی الفور شروع ہو جائے گی۔
اب فیصلے جلدی ہونا شروع ہو جائیں گے ؟کیا اب دادا کیس کر کے پوتا فیصلہ نہیں سُنے گا؟ کیا پولیس کے بوسیدہ اور بدبودار نظام میں مظلوم کو عزت اور ظالم کو عبرت حاصل ہو سکے گی ؟کیا تھانوں سے انصاف کی سبیلیں بہہ نکلیں گی ؟ کیا بھوکوں اور بے روزگاروں کے لیے دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟ کیا ملک کے تمام طبقوں اور فرقوں کے درمیان اس فیصلے کے بعد باہمی پیار محبت ، امن آتشی، برداشت اور رواداری کی فضا پروان چڑھے گی ؟اور کیااس عدالتی فیصلے کے بعد حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر پاکستانیوں کے لیے فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرنے اور اُن کی خود داری کی بقا کے لیے مُلکی قرضے اُتار نے کا ایم او یو سائن کر لیں گے؟ دُلّا دوبارہ مخاطب ہوا چوہدری صاحب کیا اس فیصلے کے بعد ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم نافذ ہو جائے گا ؟ کیا حکمرانوں اور اُن کے پیاروں کا علاج ملک کے ہسپتالوں میں شروع ہو جائے گا ؟ کیا اُن کے اور عام پاکستانیوں کے بچے ایک ہی مادرِ علمی میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیں گے؟ کیا توانائی کا بحران حل ہو جائے گا؟ کیا اس فیصلے کے بعد ملک کی ریڑھ کی ہڈی زراعت اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے گی، اس ملک کا کسان اس فیصلے کے بعد خوشحال ہو جائے گا؟ کیا اس فیصلے کے بعد کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا خاتمہ ہو جائے گا اور پینے کا صاف پانی ہر پاکستانی کو میسر ہو گا؟ کیا اس فیصلے کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
کیا حکمران اس فیصلے کے بعد اپنے اربوں کھربوں ڈالر باہر کے ملکوں سے منگوا کر اپنے ملک میں سرمایہ کاری شروع کر دیں گے؟ کیا اس فیصلے کے بعد ملک میں ٹیکس کلچر فروغ پا جائے گا؟ اور کیا ریاست اس فیصلے کے بعد اپنے ہر شہری کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے کو عملی شکل دے دی گی ؟کیا ملکی اداروں سے اقربا پروری کو جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے گا؟ اور کیا اس فیصلے کے بعد ہم ملکی مفادات کی پالیسیاں بنانے میں خود مختار ہو جائیں گے۔ دانشور دُلّا رُکا پانی کا گھونٹ پیا ، لمبا سانس لے کر دوبارہ گویا ہوا اور انتہائی دُکھ سے کہا چوہدری صاحب فیصلہ آنے کی صورت میں کچھ نہیں بدلے گا اس کے اثرات بھی 2 نومبر اور 27 دسمبر کی فضا سے مختلف نہیں ہوں گے اس کے بعد بھی ایک دوسرے پر الزامات لگتے رہیں گے۔
طرفین فیصلے کو اپنی اپنی کامیابی قرار دے ڈالیں گے میڈیا بھی ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنے والوں کو پرائم ٹائم دے کر ناظرین کے ڈویلپ کیے گئے ٹیسٹ میں شد و مد سے اضافہ کرتا رہے گا اوریہ ٹاک شوز ایک دوسرے کی تذلیل کا سلسلہ جاری رکھیں گے عقل کل سمجھنے والے دانشور اپنے بے لاگ تبصروں میں فیصلے کا مرچ مسالہ لگا کر عوام کو تفریح مہیا کرتے رہیں گے مگر یاد رکھیں پانامہ لیکس جیسے معاملات کا فیصلہ دُنیا کا ایک واحد غیر جانبدار ادارہ صرف ضمیر ہی کر سکتا ہے جسے جھنجھوڑنا مقصود ہے اس کو زندہ کیے بغیر کوئی بھی فیصلہ ملک و قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتا یہ بات کہہ کر دُلے نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ واقعی دانشور آدمی ہے۔