تحریر: شاہ فیصل نعیم دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، فلاسفروں، قلمکاروں اور ہر قسم کے زباں دانوں کی سوچوں کے زایوں اور توجہ کا مرکزو محور صنفِ نازک کی ذات رہی ہے۔ وہ اس کے جداجدا رنگوں سے اپنی تحریروں میں رنگ بھرتے رہے،من کے نہاں خانوں میں دبے جذبات سے پتا ملتا ہے کہ حال اور مستقبل میں بھی اِن کاعورت کے بغیر گزارا نہیں۔عورت کسی بھی روپ میں ہو خدا تعالیٰ کی ذات نے اُسے ایک خاص مقام سے نوازا ہے مگر جو مرتبہ و مقام “ماں” کو دیا وہ صرف ماں ہی کا منصب ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں۔ انسان زندگی گزارنے کا فن جاننے کے لیے زمانے کی خاک چھانتا پھرتا ہے اس سے بے خبر کے دنیا کی سب سے بڑی درس گاہ ماں کی گود ہے دنیا جہاںکے تعلیمی ادارے وہ علم وہنراور طریقہ و سلیقہ نہیں سکھا سکتے جو ماںکی گو د سکھاتی ہے، یہی انسان کو آشنا کرتی ہے پیار،محبت، عشق، وفا،عطا،قربانی جیسے جذبوں ، زندگی گزارنے اور رشتے نبھانے جیسے رازوںسے ۔
دنیامیں اگر کوئی حقیقی وفادار ہے تو وہ والدین ہیں اور خاص کر ماں…! کوئی کسی کی محبت میںکس حد تک جا سکتاہے ؟ زیادہ سے زیادہ جان دے سکتا ہے نا ؟تو اس سے کہیں زیادہ وفا تمہیںماں کی ذات میں ملے گی وہ اپنی اولاد کو ٹوٹ کے چاہتی ہے لوگ چاہت کی تلاش میں سرگرداں ہیں، دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں آئوایک چاہت کا پتا میںتمہیں دیتا ہوںاور ایسی چاہت صرف اسی در سے ملتی ہے۔ماں فاقہ زدہ رہ کر بھی اولاد کو روٹی کا نوالا دیتی ہے،کہر بھری سردراتوں میں ٹھٹھرتے وجود کے ساتھ گیلے بستر پہ سونا صرف اِ سے ہی گوارا ہے یہ ایسا مقام ہے لوگو جہاں چاہتوں کی سب حدیں اور سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں۔
Hajjaj bin Yusuf
حجاج بن یوسف سینکڑوں، ہزاروں مسلمانوں کا قاتل، بہنوں کے بھائی ، مائوں کے لعل اور سہاگنوں کے سہاگ اجاڑنے والا بے رحم ظالم تاریخ جس کے بارے میں خاموش ہے ایک دن اپنی ماں سے کہتا ہے:”ماں تو جانتی ہے کہ میںکتنا بڑا ظالم ہوں،میں نے کتنے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا ہے، میں نے کتنے گھروں کا سکون برباد اور کتنوں کو تاراج کیا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیاتو یہ گوارا کرسکتی ہے کہ تیرے بیٹے ‘حجاج بن یوسف’ کو تیری آنکھوں کے سامنے آگ میں ڈالا جائے، مجھے جلا دیا جائے ۔ کیا تو یہ گوارا کرسکتی ہے”؟” میں تو تیری ماں ہوں اور ایک ماں کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ اُس کے بیٹے کو آگ میں ڈالا جائے”؟ حجاج بولا:”تو پھر ٹھیک ہے ماں تو ایک ماں ہو کر یہ گوارا نہیں کرتی کہ تیرے بیٹے کو آگ میںڈالا جائے تو وہ جو ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ یہ کیسے گوارا کرے گاکہ اُ س کے بندے کو آگ میں ڈالا جائے”۔حجاج بن یوسف اپنی ماں سے اپنے انجام کا پتا لیتا ہے۔ ماں کا پیا ر بڑا انوکھا ہے لوگوجہاں عقل و شعور اور فہم وفراست کی سرحد آتی ہے وہاں سے ماں کے پیا ر کی حد ابھی شروع ہوتی ہے۔یہ ہستی شعور کی منزلوں سے ورا ہے۔
آج پھر میں زمانے کی خاک چھانتا گھر سے بہت دور نکل آیا تھا، مقصد کیا تھا؟ صرف اور صرف خوشی کی تلاش۔۔۔۔!میں تھک کر جس مکان کے پاس رُکا وہاں اندر سے کسی بچے کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اپنی ماں کو بہت ستا رہا تھا اور ماںکا غصہ تھا کہ بڑتاہی جا رہا تھا کہ میرا اپنا خون ہی میر ی بات نہیں سن رہا ۔۔؟ جب ماں نے یہ حالت دیکھی تو اُس کا غصہ اور بڑھ گیا اور چلا کر کہتی ہے: ” وے سالی دے آ باز آونا ای کہ نیں”؟ ما ں کے یہ الفاظ سن کر بچہ ہنس دیا اور اپنی طوطلی زبان میں پوچھتا ہے : ” اماں، اماں ! اے سالی کیں ہوندی اے”؟ بچے کی یہ بات سنتے ہی ماں کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ چھائی جیسے اُس چہرے پہ غصے نام کی کیفیت کبھی گزری ہی نا ہو اور ہاتھ پھیلاتے ہوئے بچے کو آغوش میں لے لیا اور کہنے لگی : ” ادھر آ میں تینوں دساں سالی کیں ہوندی “؟میں جو خوشی تلاش کرتا گلی گلی کوچہ کوچہ پھر رہا تھا یہ باتیں سنتے ہی ہنستا ہنستاگھر لوٹ آیا اور آ کے ماں کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ دن اور آج کا دن میں خوشی پانے کے لیے زمانے کی خاک چھاننا بھول گیا ہوں۔اب جب بھی مجھے خوشی کی چاہ ہوتی ہے میں ماں کے قدموں کی خاک چھان لیتاہوں۔