تحریر : سید توقیر زیدی پاک فوج نے کرم ایجنسی میں کارروائی کرکے پانچ غیر ملکی مغویوں کو بازیاب کروا لیا، جن میں کینیڈین شہری جوشوا بوئل، ان کی امریکی نڑاد بیوی کیٹلن کولمین اور تین بچے شامل ہیں۔ ان افراد کو 2012ئ میں افغانستان میں اغوا کیا گیا تھا۔ پاک فوج کے مطابق امریکی حکام نے 11 اکتوبر کو پاکستان کو خفیہ اطلاع دی تھی کہ ان مغویوں کو کرم ایجنسی کی سرحد کے ذریعے پاکستان منتقل کیا جا رہا ہے’ جس کے بعد مذکورہ علاقے میں ا?پریشن کرکے انہیں بازیاب کروا لیا گیا۔ مغوی’ اغوا کاروں کی گاڑی کی ڈکی میں تھے۔ پاکستانی فورسز نے پانچ اغوا کاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ غیر ملکی مغویوں کی بازیابی بلاشبہ پاک فوج کا ایک ایسا کارنامہ ہے’ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اور تو اور’ پاکستان کو ہمیشہ مطعون کرنے والی امریکی انتظامیہ نے بھی پاک فوج کے اس اقدام کی توصیف کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک فوج کے کامیاب آپریشن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پانچوں غیرملکیوں کی بازیابی پاک امریکہ تعلقات میں مثبت لمحہ ہے۔ انہوں نے اس کارروائی کو پاک امریکہ تعلقات میں اہم قرار دیا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ آپریشن امریکہ کی جانب سے انٹیلی جنس شیئرنگ کا نتیجہ ہے’ جو پاکستان کے اس دیرینہ موقف کو درست اور صائب ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے ہی اس خطے سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا مکمل قلع قمع ممکن ہو سکتا ہے۔
انٹیلی جنس شیئرنگ کا مطلب یہ ہے کہ اگر افغانستان میں موجود امریکی فورسز اور افغان انتظامیہ کو پاکستان کے کسی علاقے میں دہشت گردوں یا ان کے سہولت کاروں کی موجودگی اطلاع ملے’ حتیٰ کہ ان کے کسی علاقے میں موجود ہونے کا شبہ بھی ہو تو اس کے بارے میں پاکستانی فورسز کو مطلع کریں تاکہ ان کے خلاف بروقت اور بھرپور کارروائی کی جا سکے’ جیسا کہ امریکی فورسز کی خفیہ اطلاع پر کرم ایجنسی میں کامیاب کارروائی کرکے غیر ملکی مغویوں کو بازیاب کرا لیا گیاہے۔ اسی طرح اگر پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردی کی کسی ممکنہ کارروائی کے بارے میں اطلاع ملے تو وہ اسے امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ شیئر کرے۔ یہ محض ایک اطلاع اور ایک کارروائی تھی۔ دونوں فورسز اگر انٹیلی جنس شیئرنگ کا ایک مربوط اور منظم باہمی نظام قائم کر لیں تو پورے تیقن سے کہا جا سکتا ہے کہ پاک سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کیا جا سکتا ہے اور افغانستان سے ان کی خفیہ پناہ گاہیں مکمل طور پر ختم کی جا سکتی ہیں؛ تاہم یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ شیئرنگ انٹیلی جنس تک ہی ہو گی’ ان اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی کا حق پاکستان میں صرف پاکستانی فورسز کو ہو گا’ جس طرح افغانستان میں افغان یا امریکی فورسز کو یہ حق حاصل ہے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جمعرات کے روز اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ اور پاکستان میں انٹیلی جنس شیئرنگ ضرور ہونی چاہیے’ لیکن پاکستانی سرزمین پر صرف پاک فوج کارروائی کرے گی’ مشترکہ آپریشن کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا امریکہ اور عالمی برادری کے لیے قابل غور ہے کہ متعدد ممالک دہشتگردی کا سامنا نہیں کر سکے لیکن پاک فوج میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ یعنی دنیا کے بہت سے ممالک نے دہشتگردی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے’ لیکن پاک فوج اس کے خلاف برسر پیکار ہے’ اس نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں’ اور انشااللہ اآخری دہشت گرد کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی۔ یہ حقیقت اب تاریخ کا حصہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان میں القاعدہ کے تعاقب میں سرگرم ہونے کے وقت سے پاکستان ‘امریکی اور افغان انتظامیہ پر انٹیلی جنس شیئرنگ کو منظم کرنے اور بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔
اگر اس وقت پاکستان کی اس تجویز پر مناسب توجہ دی گئی ہوتی توآج اس خطے سے دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہوتا’ اور امریکہ کو سولہ برس کی جنگ کے باوجود ان ناکامیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا’ جو ایک زمینی حقیقت بن کر امریکی انتظامیہ اور اتحادی افواج کی کارکردگی کا منہ چڑا رہی ہیں۔ بہرحال اب جبکہ انٹیلی جنس شیئرنگ ایک کامیاب آپریشن کا سبب بنی ہے تو امریکی انتظامیہ کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان پر بار بار الزامات عاید کرنا اور اس سے ‘ڈو مور’ کا تقاضا ‘ مفید ہے یا انٹیلی جنس شیئرنگ؟ یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے پاکستان سے غیر ملکی مغوی جوڑے کی رہائی کو مثبت اقدام قرار دیتے ہوئے مستقبل میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری کی امید ظاہر کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کی بہترین کارکردگی کی توصیف کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ ہم دہشت گردی اور اغوا کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ شراکت داری سے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کامیاب آپریشن پر امریکی اطمینان خود پاکستان کیلئے اطمینان کا باعث ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ امریکی وزیر دفاع نے جسے مضبوط شراکت داری قرار دیا ہے’ وہ مضبوط اور مربوط انٹیلی جنس شیئرنگ ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو اس خطے سے دہشت گردی کا نام و نشان مٹا دینے کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچے گی۔