شدید بارشوں اور بھارتی آبی جارحیت کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی کے مناظر اور خبریں چینلز اور اخبارات پر تو سنا ہی کرتے تھے ۔سیلابی پانی نے دیہاتوں کے دیہات ملیا میٹ کر دیئے اور سیاسی جماعتیں دھرنوں ،مذاکرات میں مصروف ہیں،کہیں سے گو نواز گو کی آوازیں تو کہیں سے رو عمران رو کے نعرے ،غرض سیلاب متاثرین کے لئے افواج پاکستان اور چند مذہبی فلاحی اداروں کی سرگرمیاں چینلز پر نظر آ رہی تھیں جو کہ ایک خوش آئند کام تھا کہ چلیں کوئی تو ہے جو متاثرہ بھائیوں کی مدد کر رہا ہے،پنجاب میں ہونے والا نقصان شدید تھا
ان لوگوں کا تعلق اسی پاکستان سے ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح نے بنایا لیکن اسی پاکستان میں آج کے دور میں ہمیں پاکستانیوں کی نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔اسلام آباد اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ جماعة الدعوة اسلام آباد کے امیر محترم شفیق الرحمان بھائی کا پیغام ملا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لئے فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے امدادی سامان بھیجا جا رہا ہے،رضاکار بھی جائیں گے،آپ بھی ہمراہ چلیں تو میں نے حامی بھر لی اور سوچا کہ وہ لوگ جن کا آج کچھ نہیں بچا،مکانا ت گر گئے،سامان سیلابی پانی بہا کر لے گیا انکی خدمت کرنے کا ،انکے آنسو پونچھنے کا موقع ملا ہے
اس نیکی میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔روانگی کے لئے صبح 6بجے کا ٹائم مقرار ہوا سب کواکٹھا ہونا تھااور ایک گاڑی میں جھنگ کے لیے نکلناتھا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستان کے لوگ وقت کی پابندی نہیں کرتے اور ہم 8بجے اسلام آباد سے جھنگ کے لیے نکلے ہمیں دیر سے نکلنے کانقصان بھی ہوا جو تھوڑی سی کسرہتی تھی وہ ڈرائیور نے نکال لی وہ اسلا م آباد میں گاڑی چلاتا تھااس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ سنگل روڈ پر گاڑی کیسے چلانی ہے بس اللہ کا شکر ہے کہ زندہ سلامت واپس گھر پہنچے۔ میرا آپ کو بھی مشورہ ہے
جب بھی کرایہ کی گاڑی میں کہیں جائیں تو مقا می ڈرئیور لے کر جائیں۔اس سے آپ کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہوگاہم موٹروے سے پنڈی بھٹیاں انٹرچینج سے نکلے اور عام روڈ پر سفر جاری ہوگیااور ہمارے ڈرئیور کا امتحان بھی۔راستہ میں جگہ جگہ سیلاب کے اثرات تھے میں اندازہ لگارہا تھا کہ جھنگ تو ابھی دور ہے اور اس کے اثرات نظر آرہے ہیں اس کے علاوہ میں نے لوگوں کی غربت دیکھی جو میں نے اپنی زندگی میںپہلے کبھی نہیں دیکھی میں ان لوگوں کے بارے میں سوچ رہا تھاکہ ان لوگوں کا گزارہ کس طرح ہورہاہے۔ دوست نے کہا کہ منزل آگئی میں گاڑی سے اترا تو سورج نصف ونحر پر ہمارا استقبال کر رہا تھا۔
جھنگ پہنچ کر مسجد میں نماز پڑھی اور اس کے بعد کھانا کھانے چلے گئے وہاں پرجماعةالدعوہ کے مرکزی رہنما قاری محمد شیخ یعقوب سے ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ وہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی اورمتاثرین میں امداد تقسیم کرنے کے لئے آئے ہیں۔کھانا کھانے کے بعد ہم جھنگ سے کوئی دس کلومیڑفاصلہ پر واقعہ چنڈبروانہکے لیے روانہ ہوے راستہ میں جگہ جگہ گرے ہوے مکانات نظر آئے اور لوگ بھی نظر آئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر دوسرے گھروں کے نسبت اونچے ہیںاور سڑک کے کنارے پر ہیں۔ ان کاسامان جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھااس میں ایک چارپائی چند برتن اور چند چادریں تھی ۔
یہ لوگ اپنے جگہ پربیٹھے انیٹیں اکٹھیں کر رہے تھے۔ مقامی لوگوں نے بتایاکہ یہاں پر پورا گائوں تھا مگر جب سیلاب آیا تولوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا ضروری سامان لے کر نکلے ان کا اناج وغیرہ سب سیلاب کی نظر ہو گیا اگر کسی کا کوئی ٹھوڑا سا اناج بچ گیا وہ گیلا ہوچکا تھا اور اس کوخشک کرنے کے لیے دھوپ میں رکھا ہوا تھا اب ان کے پاس نہ خود کھانے کو کچھ ہے اور نہ جا نوروں کو دینے کے لیے چارہ ہے ۔جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے تباہی پہلے سے زیادہ نظر آئی۔ ان علاقوں سے سیلاب گزر چکا تھا مگرابھی بھی دو سے تین فٹ پانی کھڑا ہے اور جو مکان پکے ہیں اور سیلاب کی تباہی سے بچ گئے وہ اب پانی کھڑاہونے کی وجہ سے گرتے نظر آئے۔
چنڈ بروانہ میں ہمیں مختلف رفاہی تنظیموں کے کیمپ نظر آئے ان میں سب سے بڑا کیمپ جماعةالدعوة کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کا تھا اس میں متاثرین سیلاب کا علاج کیا جا رہا تھابیماروں میں اکژیت بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔فلاح انسانیت فائونڈیشن فیصل آباد کی ٹیم بھی موجود تھی جو ڈاکٹروں کے علاوہ ادویات اور ایک ہزار خاندانوں کے لیے راشن پیک اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اس کے علاوہ فلاح انسانیت فائونڈیشن اسلام آباد کی ٹیم بھی آئی تھی جواپنے ساتھ تین ٹرک سامان جن میں ایک ہزارخاندانوں کے لیے راشن پیک تھے
Ration
ایک راشن پیک کا وزن تقریبا بیس کلو ہے اس میں دس کلو آٹا،ڈھائی کلو چاول،دو کلو چینی ،دو کلو گھی،اس کے علاوہ پتی اور مصالحہ جات شامل ہیں اس کے علاوہ بچوں کے لیے بسکٹ اور ٹافیاں شامل تھیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کا راشن تقسیم کرنے کا طریقہ سب سے اچھا ہے پہلے متاثرین کا سروے کیا جاتا ہے اس کے بعدان کو راشن کارڈ تقسیم کیا جاتا ہے اس کے بعد ایک مقام پر لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور بغیر کسی دھکم پھیل کہ راشن تقسیم ہوجاتاہے کیوں کی لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں راشن مل جائے گا یہ طریقہ دوسری تنظیموں کو بھی اختیار کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی تا کہ سلاب متاثرہ علاقوں میں جو چھینا جھپٹی کے واقعات نظر آ رہے ہیں
وہ ختم ہوں اور متاثرین کی دل آزاری بھی ہو،دوئم جو متاثرہ لوگ ہیں صرف انہی کو سامان ملے اور وہ دو وقت کا کھانا کھا سکیں کیونہ ان علاقوں میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ اسلام آباد کی ہی ایک اورفلاحی تنظیم ریلف ریسکیواینڈ ایجوکیشن فاونڈیشن چنڈبروانہ(جھنگ)میں نظر آئی۔یہ تنظیم اپنے ساتھ نوسو خاندانوں کے لئے ایک مہینے کا راشن لے کر آئے تھے ان کو دیکھ کو خوشی ہوئی کہ اسلام آباد کے لوگ بھی مدد کررہے ہیں۔ اس کے بعد ہم اٹھاراہزاری کی طرف روانہ ہوئے مقامی لوگوں نے بتایا کی اگر یہ بند نہ توڑا جاتا تو یہ سیلاب جھنگ شہرکے اوپر سے گزر جاتااور انسانی جانوں کا نقصان بہت زیا دہ ہوتا۔
اس جگہ سیلاب کی شدت اس لیے زیادہ ہو گئی کہ یہاں پر دو دریا آپس میں مل رہے ہیں ایک دریاجہلم اور دوسرا چناب اس لیے بہت ضروری ہوگیا کہ اس بند کوتوڑا جائے۔اس طرف جا تے ہوئے ہمیں تباہی بہت زیادہ نظر آئی ۔ ہم مغرب سے تقریباَ آدھا گھنٹہ پہلے ہیڈتریمبوں پہنچے یہاں ٹریفک کا بہت ذیادہ رش تھا پانی کی ایک خوفناک آواز تھی جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی میں سوچ رہاتھا کہ ابھی تو درمیانے درجہ کا سیلا ب ہے ا ور پانی اس تیزی اور خوفناک آواز سے چل رہا ہے یہ ان لوگوں یا اللہ کو معلوم ہے میںاس کا اندازہ نہیں کرسکتا کہ جب یہاں اونچے درجے کا سیلاب تھاتو اس کا منظر کیا تھا۔ ہیڈتریمبو کو کراس کرنے کے بعد فلاح انسانیت فیصل آباد کاموبائل آپریشن تھیٹر نظر آیا اوراس کیمپ میں اسلام آبا دکاڈاکٹر مریض کا معائنہ کررہا تھا۔
ایک منظر جومیں بھول نہیں سکتا وہ ایک فلاحی تنظیم جو ایک چھوٹی سی گاڑی میں سامان لے کر جا رئی تھی اور لوگوں کو اپنے پیچھے بھاگ رئے تھے امداد کے اس طریقے نے مجھے پریشان اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ لوگ ایک دس کلو آٹے کی بوری کے لئے گاڑی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ان سے ڈنڈے بھی کھارہے ہیں یہ لوگ پیٹ کے ہاتھوں کتنے مجبور ہیں یہ اللہ ہی جانتاہے ۔اب ہم ہیڈتریمبوسے آگے روانہ ہوے مگر دوبارہ رش میں پھنس گئے اب مغرب کا وقت ہوچکا تھااو ر آگے اندھیرے میں سفر کرنا مشکل تھا اس لیے فیصلہ ہوا کہ واپس چلے جائیں۔ میں نے اوپر نقصان کا ذکر کیا وہ نقصان یہ ہے کہ ہم اپنی منزل پر نہ پہنچ سکے ۔اب افسوس ہورہا تھا کہ وقت پر کیوں نہیں نکلے۔