بین الافغان مذاکراتی عمل، تاحال کابل انتظامیہ کی جانب سے دوحہ معاہدے کے مطابق اسیروں کی رہائی مکمل نہ کئے جانے کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ افغا ن طالبان اور کابل انتظامیہ نے ابتدائی تیاریوں کے حوالے سے اپنے وفود میں اہم تبدیلیاں کیں ہیں،تاہم دونوں فریقین تکینکی مسائل کو وجوہ ظاہر کرکے بین الافغان مذاکرات میں تاخیر کے الزامات ایک دوسرے پر عاید کررہے ہیں۔ افغان طالبان کے قطر سیاسی دفتر کے نئے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم وردک کا کہنا ہے کہ جب تک تمام اسیر رہا نہیں کردیئے جاتے، اُس وقت تک بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کئے جائیں گے، تاہم افغان طالبان کے سربراہ شیخ ملا ہیبت اللہ اخند زاد کی جانب سے بااختیار 21رکنی کی نامزد کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی مذاکراتی ٹیم سے محمد عباس ستانکزئی کی سربراہی میں قطر سیاسی دفتر کی ٹیم مذاکرات کرتی رہی تھی، تاہم دوحہ مذاکرات کے کئی مراحل میں افغان طالبان کی رہبر شوریٰ سے مشاورت کی وجہ سے فیصلہ سازی کو حتمی بنانے کے لئے مکمل اختیارات حاصل نہیں تھے۔ ایک سال سے زیادہ جاری رہنے والے دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں افغان طالبان کو ”سازگار” کہا گیا۔ اب، مذاکرات کے میدان میں تبدیلی کے ساتھ ہی، افغان طالبان کے مذاکرات کاروں کی قیادت بھی تبدیل ہوگئی ہے۔
شیخ عبدالحکیم کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں رہبر شوریٰ کے اراکین بھی شامل کئے گئے ہیں،اس طرح اکیس رکنی کمیٹی کو با اختیار قرار دیا جارہا ہے۔ شیخ عبدالحکیم امارات اسلامیہ افغانستان کے زیر کنٹرول علاقو ں میں بطور چیف جسٹس فائز ہیں، ملا منصور کے ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے کے بعد شیخ عبدالحکیم کو افغان طالبان کا سربراہ بنائے جانے کی خبریں بھی سامنے آئی تھی تاہم شیخ ہیبت اللہ اخند زاد کے متفقہ انتخاب نے امریکا و غنی انتظامیہ کو مایوس کیا تھا۔ دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کو ’امن معاہدہ‘ کے بجائے’اصولی بنیادوں‘ پر مفاہمتی عمل کی دستاویزات پر دستخط قرار دیا گیا تھا، اس دستاویز میں افغان طالبان کے مجوزہ نام امارات اسلامیہ افغانستان کی توثیق بھی نہیں کی گئی، دوسری جانب افغا ن طالبان نے بھی کابل انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا،اور اصولی طور امریکا کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے میں کابل انتظامیہ کو فریق سمجھنے کے بجائے امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیا۔ ان کا موقف ہے کہ امریکا نے جب غیر ملکی فوجیوں کے ساتھ افغانستان میں جارحیت کی تو اُس وقت افغان طالبان کی حکومت تھی(گوکہ اس حکومت کو چند ممالک نے ہی تسلیم کیا تھا)۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے بین الافغان مذاکرات کے لئے ابتدائی فریم ورک تیار کیا ہوا ہے لیکن باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی تک گرین سنگل دینے میں تامل برت رہے ہیں۔واضح رہے کہ افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم دوحہ پہنچ چکی ہے۔
کابل انتظامیہ نے بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں 21 رکنی اعلیٰ کونسل برائے قومی مصاؒلحت تشکیل دی ہے۔اعلیٰ کونسل افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات و دوحہ جانے کی منتظر ہے، اعلیٰ کونسل کا انتخاب افغان صدر نے کیا ہے، دوحہ مفاہمتی مذاکرات کے دوران کوشش کی گئی کہ کسی طرح کابل انتظامیہ و افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہوسکیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔کونسل میں سیاسی و حکومتی نمائندوں کو جگہ دی گئی ہے،تاہم کونسل کی تشکیل پر بیشتر افغان سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے تنقیدبھی کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کے غیر جانبدار کمیشن کی صدر شہر زاد اکبر نے کہا کہ اس نئی کونسل کی مرکزی قیادت اور اس کے ارکان میں نوجوانوں اور خواتین کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا، ”ذرا سوچیے کہ یہ اعلان اس حوالے سے افغان عوام کو کیا پیغام دے گا، جو یہ چاہتے ہیں کہ اس عمل میں معاشرے کے ہر طبقے کی شمولیت ایک بنیادی تقاضا ہے۔“ یورپی یونین نے بھی کابل میں کینیڈا کے سفارتخانے کے ساتھ مشترکہ بیان میں افغانستان میں انٹرا افغان مذاکرات کو جلد شروع کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔یوروپی یونین کے بیان میں کہا گیا ہے کہ، ”ہم حالیہ مثبت رفتار کو نوٹ کرتے ہیں اور تمام افغان سیاسی قوتوں سے مستقل امن کے تاریخی موقع کو مستقل طور پر فائدہ اٹھانے کی تاکید کرتے ہیں“۔
ذرائع کے مطابق آسٹریلیا و فرانس نے جن افغان طالبان اسیروں کی رہائی پر اعتراض کیا تھا، ان قیدیوں کی رہائی بھی ممکن بنائی جا رہی ہے، تاہم اس حوالے سے یہ معاملات سامنے آرہے ہیں کہ اگر کابل انتظامیہ کی امن کونسل برائے مصالحت کمیٹی پر افغان طالبان کیا ردعمل دیتے ہیں۔قطر میں اُن سات اسیروں کو لایا جاسکتا ہے اور کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے سے قبل ان کی رہائی ظاہر نہ کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے، لیکن افغان طالبان چاہتے ہیں کہ دنیا بالخصوص افغانستان میں یہ پیغام جائے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق تمام اسیروں کو رہا کردیا گیا ہے، اگر کسی اسیر کی رہائی میں تاخیر یا نہ ہونے کی صورت میں افغان طالبان نے مذاکراتی عمل شروع کئے تو ان کے عسکری حلقے میں اس اَمر کو کمزوری سمجھ سکتے ہیں، ایساتاثر کم ازکم افغان طالبان نہیں دینا چاہیں گے۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان پر دباؤ بھی بڑھایا گیا کہ پانچ ہزار قیدیوں میں سے اگر چھ /سات قیدی رہا نہیں ہوئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، انہیں مذاکراتی عمل شروع کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن افغان طالبان اس حوالے سے کسی قسم کی لچک دکھانے کے لئے فی الوقت تیار نہیں۔خاص طور پر دوحہ میں شروع ہونے والے اجلاس کو باقاعدہ شروعات بھی قرارنہیں دیا جارہا، بلکہ اجلاس کو ایک تعارفی نشست کی حیثیت دی جا رہی ہے۔
افغان طالبان فوری طور پر جنگ بندی کے مطالبے کو قبول نہیں کرسکتی کیونکہ اس طرح انہیں اپنے جنگجوؤں کو قابو رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تاحال تو افغان طالبان اپنے جنگجوؤں کو رضا کار قرار دیتی ہے، اگر فوری طور پر متبادل نظام میں ان کی شرکت یقینی نہیں بنتی تو ان خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ افغان طالبان کے جنگجو، امن و باقاعدہ اسلامی حکومت کے قیام نہ ہونے پر کسی دوسرے گروپ میں بھی شامل ہوسکتے ہیں یا پھر عسکری کاروائیاں ختم ہونے پر حکومتی نظم و نسق کا حصہ نہ بننے پر بھی سنگین مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ واضح نظر آتا ہے کہ افغان طالبان افغانستان میں نظام و انصرام کی تبدیلی و موجودہ حکومت کی برخاستگی اور افغان قومی مصالحت کونسل جنگ بندی کے مطالبات کریں گے، دونوں مطالبات میں فریقین کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ ہے اس لئے کسی درمیانی راستے کو نکالنے کے لئے مذاکرات کے ادوار دشوار گذار و بار بار ڈیڈ لاک کا شکار ہوسکتے ہیں۔
بالخصوص امریکا کے ساتھ مفاہمتی معاہدے کے مطابق دیگر شقوں پر عمل درآمد میں مزید تاخیر قیام امن اور جنگ بندی کے ساتھ تشدد کے خاتمے میں رکاؤٹ کا سبب بھی بنتا نظر آرہا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت سے عالمی برادری کو بین الافغان مذاکرات کے انعقاد میں سنجیدگی کا تاثر دیا جاچکا ہے کہ افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں رہبر شوری کے اہم اراکین بھی شامل ہیں، جو ان لوگوں کے خلاف طالبان کی نوعیت اور اس کے اعتقادات کا دفاع کرسکتا ہے جو طالبان سے سخت اختلاف کرتے ہیں یا اس سے بھی متفق نہیں ہیں۔ افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ممکنہ مذاکرات کے نتیجے اور افغانوں کے درمیان تنازعات کی تصدیق یا تردید کی راہ ہموارہے یہ ایک ایسا راستہ، جو کم پیچیدہ ہے اور اس میں ملا ہیبت اللہ اخندزادے کے لئے ایک وقتی حوالہ کی ضرورت نہیں رہے گی مثال کے طور پر، ایک طرف مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولوی عبدالحکیم کی موجودگی اور دوسری طرف قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر کی موجودگی نے راستہ بہت مختصر کردیا ہے۔گو کہ20 سال کی جنگ نے خلیجوں کو اور وسیع کردیا ہے، تاہم جنگ و تشددکے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عدم تنازع پر ایسے اقدامات پر عمل درآمد یقینی بنائیں جو متفقہ طور پرطے کرلئے جائیں۔
عالمی قوتوں کو افغانستان میں پائدار امن کے لئے فروعی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ افغانستان میں طویل ترین جنگ کے باعث کروڑوں افراد بے امنی اور لاکھوں مہاجرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بے وطن ہونے والے افغان مہاجرین کی باحفاظت واپسی ہی نہیں بلکہ انہیں نئے افغانستان کے مطابق خود ڈھالنے کے لئے خوف و ہراس کی فضا سے نکالنے کی ذمے داری بھی تمام افغان گروپوں کی مشترکہ طور پر عاید ہوتی ہے۔خطے میں ایک ایسی مملکت میں جہاں خون آشام جنگیں، دھماکے اور داعش و دیگر شدت پسند تنظیمیں عام لوگوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنی ہوئی ہیں، دہشت گردوں سے نجات اور ایک آزاد پُر امن مستحکم افغانستان پڑوسی ممالک کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ شدت پسند عناصر کی وجہ سے بے گناہ افراد و عوامی مفاد عامہ کے منصوبے نشانہ بنتے ہیں۔ جس سے ترقی کی راہ مسدود ہوتی ہے، عالمی قوتوں کو افغانستان میں بیرونی مداخلت ختم کرنا ہوگی۔