کراچی (جیوڈیسک) دھرنوں اور سیلاب کے بعد امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے سبب گزشتہ 3 ماہ سے اوپن مارکیٹ کی نسبت انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر زائد دیکھی جا رہی ہے اور ایسا تاریخ میں پہلا بار ہوا ہے۔
انٹربینک مارکیٹ میں پیر کوڈالر کی قدر7 پیسے کے اضافے سے 103.05 روپے جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 30 پیسے بڑھ کر 103 روپے کی سطح پر آگئی ہے۔ کرنسی مارکیٹ کے باخبرذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال کی وجہ سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 5 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے اور جاری بحران کی وجہ سے انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی طلب بدستور غالب ہے حالانکہ اگست اور ستمبر کے 2 مہینوں میں مقامی ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے مجموعی طور پر 60 کروڑ ڈالر فاضل انٹربینک مارکیٹ کو سرینڈر کیے گئے۔
اس ضمن میں ایکس چینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے بتایا کہ ڈالر کے مقابل پاکستانی روپے کی بے قدری کی بنیادی وجہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر بڑھتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری بھی گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے متاثر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں کسی قسم کا کوئی بحران نہیں ہے بلکہ صرف بیرونی ممالک میں تعلیم، صحت کے لیے یا پھر عازمین عمرہ کی جانب سے ڈالر کی خریداری کی جارہی ہے جن کی شرح بمشکل 5 فیصد ہے، یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے ذخائر فاضل ہوگئے ہیں اور یہی ڈالر ہم انٹربینک مارکیٹ کو سرینڈر کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اضافے کے اثرات اوپن مارکیٹ پر بھی مرتب ہوتے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں مصنوعی اجارہ داری قائم کرنے والوں کا احاطہ کیا جائے اور ڈالر کی ٹرانزیکشنز کی سخت مانیٹرنگ کی جائے تاکہ ڈالر کی قدر کو کنٹرول کیا جا سکے۔