تحریر: روہیل اکبر سیاسی دور ہو یا فوجی دور ہر دور میں سفارشیوں اور کرپٹ سرکاری ملازمین کی موجیں ہی رہی جبکہ ایمانداری اور میرٹ کے جھانسے میں آنے والا یا تو بندوق اٹھانے پر مجبور ہوگیا یا پھر چھوٹی موٹی چوری کے جرم میں جرائم کی یونیورسٹی المعروف جیل میں چلا گیا جہاںنہ صرف کرپشن کے سلطان موجود ہیں بلکہ انکی سرپرستی کرنے والے جیلر حضرات بھی بڑے رعب اور دبدبے کے ساتھ براجمان ہیں جیل کی نوکری سے قبل انسان جتنا بھی ایماندار اور پرہیز گار ہو اس کے اندر حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو مگر جیل کے ہوا لگنے کے بعد سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے ایک خاکروب سے لیکر جیلر تک اورپھر اس سے اوپر تک جیتنے بھی ملازمین موجود ہیں سب کے سب کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھو رہے بلکہ اس میں غوطے بھی لگا رہے ہیں صرف گنتی کے چند ایک کے سوا۔
یہ صرف ایک سرکاری محکمے کا حال نہیں ہے بلکہ ہر طرف ایسا ہی لوٹ مار کا سماء ہے اگر حکومت اپنے وعدے کے مطابق صرف میرٹ پر نوکریاں اور تعیناتیاںکرنا شروع کردے تو بھی معاشرے میں جو تشدد کا رجحان بڑھتا جارہا ہے وہ کسی حد تک رک سکتا ہے مگر حکومتی کارندوں کی من مانیوں کی بدولت جو کھیل غریب ،مستحق اور محنتی افراد کے ساتھ کھیلا جارہا ہے وہ ہمیں صرف اور صرف تباہی کے راستے پر دھکیل رہا ہے ہم جتنی بھی کوشش کرلیں اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر منزل مقصود کی طرف جانے والی ٹرین میں سوار نہیں ہوسکتے جب تک حق دار کو اسکا حق نہ دیدیا جائے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف جو اپنی اکثر تقریروں میں میرٹ پر بہت بات کرتے ہیں مگر انہی کے دور میں جہاں میرٹ کو پائوں تلے روندا گیا وہی پر ایسے افسران کی میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیاں بھی کردی گئی۔
Punjab
جن کے خلاف خفیہ اداروں کی رپورٹس تھی کہ انہیں کسی اہم پوسٹ پر تعینات نہ کیا جائے مگر حکومت نے احد چیمہ ، ڈاکٹر حیدر اشرف اور نورالامین مینگل جیسے بہت سے ایسے افراد کو اعلی عہدوں پر بٹھارکھا ہے جنکے خلاف خفیہ ادارے کی رپورٹیں موجود ہیں جبکہ پنجاب میں بعض اہم سیٹوں پر کام کرنے والے افسران جونیئر ہونے کے باوجود اپنے سے بڑی سیٹوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں بلکہ ایک ٹکٹ میں دو اور تین مزے بھی لے رہے ہیں کیا اس سے حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ سینئر افسران میں اتنا ٹیلنٹ نہیں ہے کہ انہیں بھی کوئی مناسب عہدے پر تعینات کردیا جائے یا پھرحکومتی اقربا پروری سے یہ ثابت ہوتا ہے۔
کہ اپنے سکیل سے بڑی پوسٹوں پر تعینات ہونے والے کمائو پوت اور اچھی نوکری کے ساتھ ساتھ اچھی چاکری بھی کرنے والے ہر جائز اور ناجائز حکومتی کام بلا روک ٹوک اور چوں چرا ں کیے بغیر فوری کردیتے ہیں اسی لیے انہیں سینئرز پر ترجیح دیکر اہم عدہوں پر تعینات کردیا جاتا ہے آخر کوئی تو ایسی خصوصیات ان میں موجود ہیں جو صرف حکمرانوں کو ہی نظر آتی ہے اس وقت پنجاب کے محکمہ اطلاعات میں سیکریٹری کے فرائض اسکا منشی مکمل ہوش و حواس سے اداکررہا ہے جبکہ محکمہ اطلاعات کے اندر کی اطلاع یہ بھی ہے۔
کہ وہاں مختلف ایجنسیوں کو مطلوب افراد اہم عہدوں پر تعینات ہیں جن پر کروڑوں روپے کرپشن کے چارجز ہیںاسکے ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں میں محکمہ اطلاعت کے 9ڈائریکٹوریٹ جبکہ 5 لاہور میں ہیں جو خود مختار ہونے کے باوجود اپنی سٹیشنری تک نہیں خرید سکتے کیونکہ یہاں پر بیٹھے عرصہ دراز سے براجمان ڈائریکٹر ایڈمن ارشد سعید نے اپنے کسی عزیز کے نام پر بنائی ہوئی فرضی کمپنی کے زریعے تمام مال سپلائی کرنا ہوتا ہے۔
جبکہ ایک مریض شخص ڈائریکٹر نیوز الیکٹرونک میڈیا کو اوپر تیسری منزل پر شفٹ کردیا اور انکا کمرہ ایک خوش آمدی انفارمیشن آفیسراشتیاق کے حوالے کردیا گیا ہے جس نے پہلے ہی اپنی دوکانداری اچھی سجا رکھی تھی امید ہے اب مزید بہتر ہوجائے گی یہاں ہر روز لاکھوں روپے کی ڈیل ہوتی ہے جبکہ اس سے اوپر کروڑوں روپے کا لین دین ہورہا ہے خفیہ اطلاعت یہ بھی ہیں کہ یہ غیر قانونی انداز میں اکٹھے ہونے والے پیسے کسی این جی او کے اکاوئنٹ میں جا کر حلال ہورہے ہیں۔
Government
جبکہ یہی روش حکومت میں رہ کر عوامی خدمت کرنے والے وزیروں نے بھی اپنا رکھی ہے میرٹ کی دھجیاں اڑانے والوں نے ایسی ایسی مثالیں قائم کردی ہے کہ جنکا ازالہ ممکن نہیں ہے مرکز میں بیٹھے ہوئے ایک وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے بھی ایک ایسی خاتون زروا خلیل کو زبردستی سٹینو ٹائپسٹ بھرتی کروالیا جو میرٹ کے لحاظ سے زیرو تھی جو ہر ٹیسٹ میں زیرو تھی جبکہ مزے کی بات یہ ہے۔
کہ اسے جس کام(شارٹ ہینڈ) کے لیے رکھا جانا تھا وہ کام اسکے قریب سے بھی نہیں گذرا تھامگر وہ وزیر کی چہیتی تھی اس لیے اسے علی رضاء اورسجاد پر فوقیت دیکر رکھ لیا گیا جو ہر لحاظ سے اس سیٹ کے لیے بہترین تھے اور ہر ٹیسٹ میں نمبر بھی اچھے لیے تھے اب اگر ایسے افراد جو ہر لحاظ سے میرٹ پر بھی آتے ہومحنتی بھی ہو اور غریب خاندان سے تعلق بھی ہو انہیں اگر نوکری نہیں ملے گی تو پھر وہ آخر کار کیا کرینگے۔
کیا یہ بھی کل کسی بے روزگار کی طرح ہاتھ میں بندوق پکڑ کر لٹیروں کو لوٹتے نظر آئیں گے کیا حکومت نے ہاتھی کے دانتوں کو میرٹ کا نام دے رکھا ہے جو کھانے کے اور اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں کیا یہ پڑھے لکھے ،محنتی اور غریب خاندان کے لڑکوں کے ساتھ معاشی دہشت گردی نہیں ہورہی نہ جانے کب ہمیں میرٹ کے نام پر فراڈ کرنے والے ان اقربا پروروں سے نجات ملے گی اورنہ جانے کب اور کس دور میںمیرٹ ایک حقیقت بن کر سامنے آئے گا۔