بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی آخری تقریر میں جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کی تھی اسٹیٹ بینک کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کو تلقین کی تھی کہ اس نظام کو تبدیل کرے اور اسلام کے مطابق بنائے۔ پاکستان میں اسلام کے خلاف نظام نہیں چل سکتا مگر پاکستان نام سے اسلامی بن گیا اس میں نظام مغرب کا ہی چلتا رہا، اسلامی نظام کو وطن عزیز میں خواب بن کر رہ گیا بلکہ اسلامی تعلیمات کی دھجیاں بکھیری گئیں۔
سود ایک المیہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سود کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کہا ہے مگر آج قائداعظم کے اسلامی پاکستان میں سود کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے۔ 1992ء میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کو غیر اسلامی قرار دیا تھا لیکن اس فیصلے کے بعد اس وقت کی نواز شریف کی حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں قومی اور دیگر بینکوں کے ذریعے اپیل دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت میں سالوں لگادیے اور 1999ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کی حکومت کو ربا کے خاتمے کے لئے تمام بینکنگ اور دیگر قوانین میں ترمیم کا حکم دیا تھا تاہم اس وقت کے حاکم پرویز مشرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے تیار نہیں تھے۔بعد ازاں مشرف حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی تھی 2000 کے بعد پی سی او کے تحت حلف لینے والی سپریم کورٹ کے سامنے اٹھایا جس نے 2002 میں اس کیس کو واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا تھا تاہم اس وقت کی حکومت کی سہولت کے لئے سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کو اس کیس کا فیصلہ کرنے کے لئے مقررہ وقت کا تعین نہیں کیا تھا اسی وجہ سے شرعی عدالت نے اس معاملے کو سرد خانے کی نذر کر دیا۔
اب جب میڈیا نے اس معاملے کو مرکز نگاہ بنایا تو شرعی عدالت میں کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان کی سربراہی میں جسٹس فدا حسین، جسٹس رضوان علی درانی، جسٹس شیخ فاروق اورجسٹس شہزاد شیخ پر مشتمل پانچ رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ عدالت نے اکیس اکتوبر کو سماعت میں حکم دیا کہ ربا یا سود سے متعلق عوام الناس کیلئے 14 نکات پر سوالنامہ شائع کیا جائے۔ اسی عدالتی سوالنامہ کے تناظر میں ملی مجلس شرعی کا ”حرمت سود” کے حوالہ سے امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا جس میں مفتی محمد خاں قادری، ابو عمار زاہدالراشدی، حافظ محمد عاکف سعید، مولانا امیر حمزہ، حافظ عبدالغفار روپڑی، صاحبزادہ سلطان احمد علی، قاری محمد یعقوب شیخ، عمر ابراہیم اوڈیلو، اوریا مقبول جان، حافظ محمد مسعود، محمد خلیل الرحمن قادری، عاطف وحید، محمد توقیر عباس، سید مظفر حسین شاہ نے شرکت کی اجلاس میں ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کے قائدین اور جید علماء کرام نے متفقہ طور پر سود کے خلاف ملک گیر سطح پرتحریک ختم نبوت کی طرز پر بھر پور تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں ہر مسجد اور گلی محلہ سے آواز بلند کی جائے گی۔
Supreme Court
علماء کنونشنز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں جلد ملک بھر کی مذہبی جماعتوں کے قائدین اور تمامتر مکاتب فکر کے جید علماء کرام کا نمائندہ اجلاس بلایا جائے گا جس میں اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ عوامی سطح پر ملک میں چلنے والے سودی اور استحصالی نظام کے خلاف بھر پور انداز میں عوامی شعور کو بیدار کیا جائے گا۔ حکومت پر دبائو بڑھایا جائے گا کہ وہ حیلے بہانے ختم کر کے سود کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرے اور پیپر کرنسی ختم اور سونے و چاندی کے سکوں کا اسلامی معاشی نظام رائج کیا جائے پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہ سود کے خلاف سپریم کورٹ فیصلے دے چکی ہے لیکن چونکہ حکومت نہیں مانتی اوربینکنگ سسٹم اور بین الاقوامی معاملات حکومت نے چلانے ہیں اس لئے ہم نے پورے ملک میں بھرپور تحریک کھڑی کر کے حکومت سے یہ بات منوانی ہے کہ پاکستان جو لاالہ الااللہ کی جاگیر ملک ہے اس کے عوام سود کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے۔ حکومت ایک بہانہ بناتی ہے اور کتنے سال گزر جاتے ہیں۔ حکومتوں کے پاس بہانے بہت ہوتے ہیں۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح ختم نبوت کی تحریک چلائی گئی تھی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا گیا تھا اسی طرح سود کے خاتمہ کیلئے بھی ایسی ہی تحریک منظم کرنا ہوگی۔ اس تحریک میں علماء کرام بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے۔
پورے ملک کو اس سلسلہ میں متحرک کرنا ہو گا۔ سود کے خلاف تحریک کے سلسلہ میں ہر شہر اور ہر علاقہ سے لوگوں کو باہر نکلنا ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام جلد ان شاء اللہ ختم ہونے والا ہے۔ پاکستان کے گلی کوچوں سے جب اس سلسلہ میں تحریک اٹھائی جائے تو کامیابی ان شاء اللہ یقینی ہے۔ اجلاس میں علماء کرام نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام و شیوخ الحدیث، مفتیان کرام کو یکجہتی کے ساتھ سود کے حوالہ سے مشترکہ موقف دینا چاہئے اور ملک گیر سطح پر بھرپور تحریک اٹھانی چاہیے۔ سودی نظام کے خلاف عوامی سطح پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے وفاقی شرعی عدالت نے سود کو اسلام اور آئین کے منافی قرار دیا تھا مگر اپیلوں کے بعد فیصلے پر نظر ثانی کا کہا گیا اب دس سال بعد وفاقی شرعی عدالت میں حرمت سود کے حوالہ سے کیس چل رہا ہے اہل علم اور دینی مراکز کو اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لینا چاہئے تا کہ عالم اسلام کو حقیقی رہنمائی فراہم کی جا سکے۔ اجلاس میں ورلڈ اسلامک منٹ کے چیئرمین اور ممتاز ماہر معاشیات نو مسلم عمر ابراہیم اوڈیلو نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی اور کہا کہ ایک ہزار چار سو سال تک اسلام نے بغیر سود کے دنیا میں حکمرانی کی ہے۔
اسلام نے بہترین معاشی نظام دیا ہے ہمیں نیویارک کی بجائے مکہ اور مدینہ کی طرف دیکھنا چاہئے۔ملائشیا کی ایک ریاست میں (ابراہیم اوڈیلو کا پیش کردہ درہم اور دینار)ایک کامیاب اسلامی معاشی نظام چل رہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے درہم اور دینار کے وہ سکے بھی دکھائے جو ملائشیا کی ایک ریاست میں چل رہے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38 الف کے مطابق یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو سود کے خاتمہ کیلئے علمی اقدام کرے آئین کا یہ آرٹیکل 1973 سے چلا آرہا ہے مگر حکومت جو مغرب کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے اس پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔
Quran
قرآن و سنت کے واضح احکام ملک کے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے اور قائداعظم کی تقریر پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس غیر اسلامی عمل کے خلاف متفقہ فیصلہ دینے کے لئے 1992 کے اپنے فیصلے میں قرآنی آیات کے متعلقہ احادیث اور اسلامی قانون کے متعلقہ حصوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ربا کا عمل غیر آئینی اور ممنوع ہے لیکن پاکستان کی آزادی سے لیکر اب تک یہ عمل جاری ہے اور 1992 کے ربا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرانے پر نواز شریف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بنے تھے اب پھر نواز شریف کی حکومت ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت شروع کر دی ہے اور مذہبی جماعتوں نے بھی سود کے خالف ملک گیر تحریک کا اعلان کر دیا ہے ۔جس کے لئے علامہ زاہد الراشدی کو رباطہ کنوینئر مقرر کیا گیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ 21 برس بعد نواز شریف کو ایک بار پھر امتحان کا سامنا ہے وہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے سود کو جسے رب ذولجلال نے جنگ کہا ہے رب تعالیٰ سے جنگ جاری رکھیں گے یا پھر سابقہ لغزشوں کی معافیوں اور کفارہ کے طور پر سود کو حرام کہہ کر اس کے خاتمے کے لئے بھی عملدرآمد کروائیں گے۔