تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ قرآن شریف میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ سود لینا اللہ اور اس کے رسولۖ کے ساتھ کھلی جنگ ہے اس لیے اس کی حرمت پر دو رائے کبھی بھی نہیں ہو سکتی چاہے وقت کے حکمران اس پر کتنی بھی دیلیں لے کر آئیں۔ صاحبو!سود پر قرض لے کر کاروبار کرنے سے معیشت کا پیہّ(ویل) نسبتاً آہستہ چلتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ میں مہنگائی بھی بڑھتی ہے اور اِس کے مقابلے میں اگر اسلامی طریقے سے مل جل کر شراکت کی بنیاد پر سرمایا کاری سے کاروبار کیا جائے تو معیشت تیزی سے ترقی کرتی ہے جب کاروبار آہستہ چلتا ہے تو مہنگائی بڑھتی ہے جس سے لا محالہ اثر عوام پر پڑتا ہے۔
جب اثر عوام پر پڑتا ہے تو عوام کے ووٹوں سے حکومتیں بنانے والے سیاست دانوں کو فکر لگ جاتی ہے کہ وہ کیا کریں جس سے عوام پر بوجھ کم کیا جا سکے اور اُن کی حکومتیں چلتی رہیں اس ہی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہمارے صدر صاحب نے ایک غیر اسلامی مطالبہ کر کے علماء سے درخواست کی ہے کہ وہ سود کے معاملے میں کوئی نہ کوئی گنجائش نکالیں ۔اللہ کی حدود توڑنے کا تو اللہ کے پیغبروں کو بھی حق نہیں تو علماء کیا کر سکتے ہیں؟حکمرانوں کو اس طرح کی غیر اسلامی باتیں کرنے کے بجائے سیدھے طریقے سے ملک پاکستان میں آئین پاکستان کے مطابق میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا چاہیے اگر اس میں کوئی ٹیکنیکل دشواری ہو تو علماء سے رجوع کیا جا سکتا ہے نہ کہ اس سے رو گردانی کے لیے ایسی غیر اسلامی درخواتیں کی جائیں ویسے بھی سوشل میڈیا پر صدر صاحب کی اس بات پر ذبردست مخالفت کی جا رہی ہے۔
Islamic Finance
اسی تجزیہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو دنیا کے اندر شراکت کی بنیاد پر کئی غیر سودی بنک بھی قائم ہو گئے ہیںاور ان کی کارکردگی سودی لین دین کرنے والوں بنکوں سے بہتر ہے۔اگر ہم ایک عام آدمی کی حیثیت زیر بعث معاملہ پر ذرا سا بھی غور کریں تو یہ امر روز روشن کی طرح ہمارے سامنے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی کاروبار شروع کرنے کے لیے بنک سے سود پرقرض لیتا ہے اور اگر شرع سود ١٨ فی صد ہو توجب وہ کوئی مال تیار کرتا اور اُس مال کی قیمت فروخت کا تعین کرتا ہے اور بازار میں فروخت کرنے لیے پیش کرتا ہے ہے تو سب سے پہلے تو وہ ١٨ فی صد سود والی رقم اور اُس مال کو تیار کرنے والے اخراجات میں جمع کرے گا تو اس طرح ١٨ فی صد مال پہلے ہی مہنگا ہو جائے گا۔
دوسری طرف جو کاروبار شراکت کی بنیاد پر شروع ہو گا جس میں سرمایا بنک سے سود پر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ شراکت کی بنیاد پر سرمایا حاصل کیا جاتا ہے اور بنک کو سود کی مد میں ١٨ فی صد ادا کرنا نہیں پڑتا اُس مال کی قیمت فروخت کا جب تعین کیا جاتا ہے تو وہ مال ١٨ فی صد کم قیمت پر عوام کو فروخت کیا جائے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر شراکت کی بنیاد پر کاروبار شروع کیا جائے تو سودی کاروبار کرنے کی بہ نسبت قیمتیں کم ہونے سے معیشت کا پیہّ تیزی سے جلتا ہے اور معاشرہ خوشحال ہو جاتا ہے۔
اس سے ایک طرف تو لوگوں کو سرمایا کاروبار میں لگانے کی ترکیب ملتی ہے اور سرمایا ایک جگہ روکنے کے بجائے گردش میں ہوتا ہے تو معیشت کی اصطلاح میں ملٹی پلائیر اپنا کام شروع کر دیتا ہے توعوام میں خوشحالی آتی ہے۔ لوگوں کے اندر اعتماد پیدا ہوتا ہے معاشرے میں بھائی چارے کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر سودی لین دین کے تحت کاروبار کیا جائے تو سب سے پہلے مال کی قیمت فروخت بڑھ جاتی ہے جس سے عوام پر بوجھ پڑتا ہے اور خوشحالی رُک جاتی ہے۔ سودی معاشرے میں عوام میں ایک دوسرے سے اعتماد کی بجائے آپس میں نفرت کی فضا قائم ہوتی ہے۔کیونکہ سود پر پیسہ دینے والے کو عوام کی خوشحال کی فکر میں ہوتی اُس اپنا پیسہ وصول کرنے کی فکر ہوتی ہے چائے عوام بد حال ہی کیوں نہ ہورہے ہوں۔پھر خسارے کی شکل میں کاروبار کرنے والے کو پہلا سود ادا کرنے کے لیے نیا قرضہ لینا پڑتاہے معاملہ بلاآخر تباہی پر ہی ختم ہوتا ہے۔
پاکستان کی معیشت بھی سود در سود کے نظام پر چل رہی ہے پہلا سود ادا کرنے کے لیے نیا قرضہ لینا پڑھ رہا ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرضہ دینے سے پہلے کہتا کہ میرا قرضہ ادا کیسے کرو گے؟ پھر خود ہی حکومت کو حکم دیتاہے کہ فلاں فلاں قسم کا عوام پر ٹیکس لگائو،فلاں فلاں اشیاء کی قمیتیں بڑھائو اور فلاں فلاں ادارے نج کاری کرو۔ اسی ہدایت پر وزیر خزانہ نے ٤٠ ارب کے نئے ٹیکس لگائے ہیں جس سے عوام مزید بد حال ہو جائیں گے۔
IMF
آئی ایم ایف کو عوام کی خوش حالی ،ایک دوسرے میں اعتماد و ہمدردی سے کیا لینا دینا اُسے تو اپنا قرضہ وصول کرنے کی فکر ہوتا ہے۔ کاش کہ اسلامی ملکوں کی حکومتوں کو اس کی فکر ہوتی اور وہ اس کا انتظام بھی کرتے تو آج ہماری عوام یورپ ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی عوام کی طرح خوش حال ہوتی۔ہمارے ملک کی عدلیہ کہہ رہی ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کر واعظ نہیں کر سکتے کہ سود حرام ہے۔ جو سود نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے، اور جو سود لیتا ہے اس سے اللہ پوچھے گا۔
کیا اس مفروضے کہ پر اگر کوئی چوری کرنے والے چوری نہ کرے اور جو چوری کرے اُس اللہ سزا دے گا تو ہمارے اداروں اور قانون کی کیا ضرورت ہے سب کچھ اللہ پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ خوا مخواہ کے لیے ان پر اتنی کثیر رقم کیوں خرچ کی جائے ۔اللہ نے تو کہا ہے کہ سود لینے کو اللہ اورکے رسولۖ کے خلاف جنگ ہے۔
ہمارے ملک کے ادارے پارلیمنٹ سے پاس شدہ کافروں کے قانون کے مطابق قانون کی تعلیم دے رہے ہیں اسی قانون کے مطابق ہمارے جج صاحبان بھی فیصلہ دینے کے پابند ہوتے ہیں اس میں ان کا قصور نہیں ہے ہمیں اپنے قانون کو اسلام کے مطابق بنانا ہو گا اگر اسلامی ملک پاکستان میں جج حضرات کو اسلامی شہریت کے مطابق تعلیم دے جاتی تو جج صاحب بھی اسی قانون کے مطابق فیصلے کرتے۔جہاں اللہ کی سزا کا تعلق ہے تو اس کی سزا بڑی سخت ہوتی ہے اللہ ہی اُس سے ہمارے ملک کو محفوظ رکھے اور اللہ ہمارے حکمرانوں کو اس امر کی توفیق دے کہ اللہ کی سزا سے بچنے کی کوشش کریں شرعی کورٹ کے فیصلے کے پر عمل کرتے ہوئے ملکِ پاکستان سے سودی نظام کوبتدریج ختم کرنے کی کوششیں کرے اور اللہ سے جنگ نہ کریں کیونکہ سود لینا اللہ رسول ۖکے ساتھ جنگ ہے۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)