تحریر: امتیاز علی شاکر، لاہور میاں محمد شریف (مرحوم) جن کا ایک بیٹا میاں محمد نواز شریف اس وقت وزیراعظم پاکستان اور دوسر بیٹا میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب ہے اپنی اہلیہ کے ساتھ اکثر رات کے دو بجے داتا دربار میں حاضری کے لیے آتے وہاں موجود راقم کے مرشِد سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست جو اس وقت عالم مجذوبی میں تھے سے دعا کی درخواست کرتے، شاہ صاحب نے میاں محمد شریف سے فرمایا میاں صاحب آپ چوہدری نہیں بن سکتے حکمران بنیں۔
میاں شریف نے کہا کہ کسی بزرگ نے پہلے بھی کہا تھاکہ آپ چوہدری نہ بنیں بلکہ حکمران بنیں۔ایک موقع پر میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کے والد میاں محمد شریف نے محمد رفیق باجوہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی موجودگی میں آپ سے وعدہ کیا کہ دوبارہ ہماری حکومت آگئی تو ملک سے سودی نظام ختم کر دینگے ۔پر دوبارہ حکومت ملنے کے باوجودایسا نہ ہوسکااسی وجہ سے آپ میاں محمد شریف سے ناراض ہوگئے۔آپ کا فرمان ہے ملک سے سودی نظام ختم ہو جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیںگے اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ سودی نظام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولۖ کے خلاف کھلی جنگ ہے ۔سود میں فلاح نہیں بلکہ تباہی ورسوائی ہے ہم ایٹمی طاقت بن کر بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔
Interest
سود کا خاتمہ ممکن ہے درجنوں لوگوں کو زکوٰة دینے کی بجائے ایک شخص کو زکوٰة دی جائے تاکہ وہ اپنا کاروبا ر شروع کر لے اسی طرح دوسرے بندے کو بھی کاروبار کے لیے ذکوٰة دیں تاکہ لوگ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔درویش وقت کے ساتھ کیا ہوامیاں محمدشریف کا وعدہ یادلانے کا مقصدروزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی توجہ سودی نظام کی طرف دلانا ہے تاکہ وہ اپنے والد کا کیا وعدہ وفا کرکے نہ صرف سیدعرفان شاہ صاحب کو راضی کریں بلکہ اللہ تعالیٰ اوررسول اللہۖ کی بارگاہ میں بھی سرخروہوجائیں۔میراآج کا موضع ہے ‘سود کی گنجائش،لعنت ہے ‘ہے بہت دنوں سے ذہن میں سود کے حوالے سے کچھ سوالات گردش کررہے تھے جو اپنے ملک کی اسلامی خاص طور پر سیاست میں حصہ لینے اور حکو متوں میں شامل رہنے والی اسلامی جماعتوں کے امیروں کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا تھا۔
جناب صدرپاکستان کابیان جس میں انھوں نے علماء کوقرض پرسودکی گنجائش پیداکرنے کی اپیل کی سن کر اپنی اورعلماء اکرام کی حالت پرشرم محسوس ہونے لگی ہے ۔علماء دین حق (اسلام)سودکیخلاف اعلان جنگ کو عملی شکل دے چکے ہوتے تو کوئی اُن سے قرض پرسودلینے کی گنجائش پیداکرنے کی بات نہ کرتا،اتنی بڑی بات وہ بھی میڈیاکے سامنے کسی امید پرہی کی جاسکتی ہے۔اورپھر چار،پانچ دن گزرجانے کے باوجودکوئی سخت ردعمل نہ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ امیرآدمی چاہے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف بھی کرلے علماء ٹھنڈے رہیں گے۔
مسلمانوں کے ساتھ سود کیلئے گنجائش پیداکرنے کی بات کوئی غیرمذہب بھی نہیں کرتا۔کون جانے ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہی مذہب سود کے ساتھ ہے؟سوتے جاگتے سود کی تسبیح پڑھتے ہونگے یہ لوگ تب ہی توبڑی جرات مندی کے ساتھ علماء سے سودکی گنجائش پیداکرنے کی اپیل کرڈالی ورنہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدودپھلانگنے کی ہمت کیسے ہوتی؟ اتنا تو عام سے عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ سودی لین دین کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین (اسلام )سختی سے ہر قسم کے حرام سے دوررہنے کی تلقین فرماتا ہے ۔راقم سود کے خلاف اس قبل بھی کئی دفعہ قلم اُٹھا چکا ہے پر آج علماء کرام کی خدمت میں کچھ سوالات پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔
Profit in Business
سود کے خلاف کھری اور سچی دلیلیں پیش کروں گا ”نبی کریم ۖنے سود کے حرام ہونے کے حوالے سے فرمایا کہ یہ قانون پوری انسانیت کی تعمیر واصلاح اور فلاح کے لئے ہے۔لہٰذا اس کا اطلاق نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں پر بھی ہوگا۔نبی کریم ۖ کے اس فرمان کے بعداسلامی حکومت کے دائرے میںسودی کاروبار ایک جرم بن گیا ہے۔عرب کے جو قبیلے سود کھاتے تھے نبی کریمۖ نے اُن کو اپنے اعمال کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ وہ اس لین دین سے باز نہ آئے تو اُن کے خلاف جنگ کی جائے گی ”یعنی سرکار دوعالمۖ نے سود کا لین دین کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد (جنگ)فرما کر یہ بات واضع کردی کہ سود کا کاروبار کرنے والے اللہ تعالیٰ اور اُس کے دین کے دشمن ہیں۔نجران کے عیسائیوں کوجب اسلامی حکومت کے تخت میں اندرونی خود مختاری دی گئی تومعاہدہ میں تصریح کر دی گئی کہ سودی کاروبار کرو گے تومعاہدہ ختم ہوجائے گا اور ہمارے تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی ۔سرکار دو عالمۖ نے جب اہل طائف کے ساتھ معاہدہ امن کیا توسودی لین دین کے خاتمے کی شرط لگائی۔
حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول ہے کہ جو شخص اسلامی مملکت میں سود چھوڑنے پر تیار نہ ہوتو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اُس کی گردن اُڑا دے پرافسوس کہ ہمارے صدر صاحب تو علماء کوسود لینے دینے کی گنجائش نکالنے کا حکم صادر فرما رہے ہیں۔کوئی صدرصاحب کو بتائے کہ علماء دین اسلام کے مالک نہیں جو گنجائش پیداکرسکیں اور یاد رکھواسلام میں کسی قسم کی تبدیلی تو یزید بھی نہیں کرواسکا ۔سودی لین دین کرنے والوں اور اُن کے نظام حکومت کے خلاف اللہ تعالیٰ اور نبی کریمۖ نے اعلان جنگ فرمایا ہے۔
میرا پاکستان کے تما م علماء کرام کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ سود کے خلاف خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے پیارے حبیب ۖنے اعلان جنگ کر رکھا ہے تو پھر اللہ اور اس کے رسولۖ کوماننے والے سودی نظام کا حصہ اس قدر خاموشی کے ساتھ کس طرح بن سکتے ہیں؟ جس طرح آج ہم بن چکے ہیں ۔جب ہماری حکومتیں آئی ایم ایف سے سود پر قرض لیتی اور اپنے ملک کے نوجوانوں کو سود پر قرض دیتی ہیںتومسلمان اور اہل علم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولۖ کے دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کیوں نہیں کرتے ؟آخر وہ کون سی مجبوری ہے جس نے علماء کرام کو سودی نظام کے خلاف آواز بلندکرنے سے روک رکھا ہے ؟آخر وہ کون سی زنجیریں ہیں جنہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے ہاتھ پائوں جکڑ رکھے ہیں؟کیوں ہم اُن لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے ہیں جن کا جینا مرنا،اُوڑھنا بچھونا ،کھانا پینا ،سونا جاگنا یہاں تک کہ ہر عمل سودی نظام میں لت پتھ ہے ؟ ہمارے علماء کرام نے کوئی نیا اسلام دریافت کرلیا ہے جس میں سود کو حرام کی بجائے حلال ہونے کا شرف حاصل ہے تو پھر علماء قوم کو اُس دین سے آگاہ کیوں نہیں کرتے ؟ اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ لڑنے والوں کے ساتھ سودی نظام میں رہتے ہوئے کوئی امن معاہدہ طے پاچکا ہے تو پھر علماء صاحبان صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے کہ اب سود اُس قدر حرام نہیں رہا۔
Muhammad PBUH
صدرپاکستان نے سودی نظام کے حق میں گنجائش پیداکرنے کی بات میڈیا کے سامنے کی ہے تواندر کیا کیا ہوتاہوگا ؟ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے سوالات کو مزید الفاظ دینے کی کوشش کروں گا تو ممکن ہے گمراہی کی حدسے گزر جائوں اس لئے میں آج علماء کرام کی خدمت میں نہایت عاجزی کے ساتھ یہ سوال رکھتا ہوں کہ سرعام سود کا نظام چل رہا ہے ہم کب اللہ اور اللہ کے رسول اللہۖ کے حکم کے مطابق اس نظام حرام کے خلاف اعلان جنگ کریں گے؟ کب تک ہم حرام کھانے کے بہانے تلاش کرتے رہیں گے؟کب تک اس ظلم کے نظام کے خلاف جنگ نہیں کریں گے ؟علما ء کرام سے سنا ہے کہ جو مسلمان غلطی سے (بے خبری میں)حرام کھا لے بارگاہ الٰہی میں 40روزتک اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی یعنی بے خبری میں حرام کھانے والا مسلمان 40روز تک بارگاہ الٰہی سے دور ہوجاتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو ثابت ہوا کہ حرام نہ کھانے والے مسلمان کی جائز دعا بارگاہ الٰہی میں کبھی رد نہیں ہوتی ۔قارئین محترم ذرہ غور کریں بے خبری میں حرام کھانے سے انسان اپنے رب کی بارگاہ سے دورہوجاتا ہے تو پھر جان بوجھ کرروزانہ حرام کھانے والوں کا کیا حال ہوگا؟پوری کی پوری قوم نظام حرام کی دلدل میں پائوں سے سر کے بالوں تک ڈوب چکی ہو ،چاروں اطراف سے سودی لین دین کرے ۔یعنی اپنے رب اوراُس کے رسولۖ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ ان سے جنگ لڑے تو اُس قوم کو ذلیل و رسوا ہونے سے کون بچا سکتا ہے ؟کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتا ہے ؟کون ہے جو ہمیں حرام کھانے کے باوجود بارگاہ الہی میں مقبول کر دے ؟کون ہے جو اس جنگ میں ہمارے لئے فتح کا انتظام کرے گا۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ہر نقصان کی ذمہ داری فوری طور پر امریکہ یا کسی اور ملک پر عائد کردیتے ہیں پرکبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم توخود اللہ تعالیٰ اور نبی کریمۖ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ قرض پرسودکی گنجائش نکالنے کی کوشش کرنے والے سن لیں ،وہ حرام کھاناچاہتے ہیں یا کھاتے ہیں تو کھاتے رہیں ،اسلام کے اندراللہ تعالیٰ نے سودحرام کیاہے اورجسے اللہ تعالیٰ حرام قراردے دے اُسے دنیا کے کسی مولوی کا فتویٰ حلال نہیں کر سکتا۔سود کھانے والوں پر اللہ ،رسولۖ اور تمام مخلوقات کی لعنت ہو۔