تحریر : زاہد رضا چوہدری ’’باہمی دلچسپی کے امور‘‘ دلچسپ مگرمبہم ملاقاتوں کا نام ہے۔راز و نیاز پر مبنی ان ملاقاتوں کا اہتمام حکومتی اعلی شخصیات اور بیرون ممالک سے آئے سربراہان کے مابین بند کمرے میں کیا جاتا ہے۔ایسی خفیہ نشست کی پریس ریلیز بھی ’’ دو سربراہان کے مابین باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال‘‘ کے نام سے میڈیا کو موصول ہوتی ہے،، اب اندرون خانہ کن امور پر کتنی دلچسپی سے بات چیت ہوتی ہے اور کس طرح کے خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے ،ایسی رازو نیاز پر مبنی سرگوشیوں سے بحر کیف یہی قیاس ہوتا ہے کہ ان ملاقاتوں میں عوامی و حکومتی مسائل کی بجائے وسائل پر ’’باہمی دلچسپی‘‘ پر تبادلہ خیال ضرور نمایاں ہوتا ہوگا۔۔!!
ایک سینئر صحافی دوست کا کہنا ہے کہ باہمی دلچسپی اجتماعی مفاد کی بجائے باہمی مفاد کو تقویت بخشتی ہوئی ایک خفیہ کوڈ میں چلی جاتی ہے جو ملاقاتوں میں شریک کسی بھی شخص کی ریٹائرمنٹ کے بعد لکھی جانی والی کتاب کی صورت میں ڈی کوڈ ہوتی ہیں جبکہ تین الفاظ پر مشتمل یہ جملہ اپنا مفہوم خود سے بھی یہی بیان کر تا دکھائی دیتا ہے کہ جن اُمور پر دلچسپی کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہو وہ باہمی مفاد پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ دوسری جانب اس جملے سے ا گر ’دلچسپی اور باہمی‘ یعنی باہمی دلچسپی کو علیحدہ کر دیا جائے تو فقط’’ اُمور‘‘ بچتا ہے جس پر تبادلہ خیال کر کے محض رسم پوری کرلی جاتی ہے۔۔!!
سیاسی اُمور میں ماہر ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ’باہمی دلچسپی کے اُمور‘ سے منسوب ملاقاتیں ہی دراصل حکومت سازی کا اہم جُزسمجھی جاتی ہیں جبکہ اس کے علاوہ ہونے والی باقی تمام ملاقتیں محض رسم اور دکھاوا ہوتی ہیں یعنی کرپشن سمیت باہمی مفادات کے فیصلے ایسی ہی ملاقاتوں کی سرگوشیوں میں طے ہوتے ہیں۔باہمی دلچسپی کے اُمور فقظ حکومتی و بین الاقوامی سطح پر ہی طے نہیں ہوتے بلکہ یہ سہولت ہر ادارے میں ہر آن مؤثر رہتی ہے،،!!۔
Law
روڈ پرچلنے والا موٹر سائکل سوار سگنل توڑنے یا قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں وہاں پر موجود ٹریفک سارجنٹ سے باہمی دلچسپی کے اُمور باہمی رضا مندی سے با احس خوبی طے کر کے ہنستے کھیلتے اپنے اپنے کام دھندوں میں پھر سے مصروف ہو جاتے ہیں،، ایک بار کراچی سے حیدر آباد جاتے ہوئے دوران سفربس اچانک سے رُک گئی ،باہر جھانکا تو پتا چلا کہ بس قانون کے ہتھے چڑھ گئی مگر پھر دیکھا کہ ڈٖرائیور اور سارجنٹ سڑک کنارے اوٹ لئے باہمی دلچسپی کے اُمور طے کر رہے ہیں، کچھ ہی دیر میں دونوں کے مابین معاملات طے پا گئے اور ڈرا ئیور پانچھیں کھلاتا واپس آیا ،گاڑی اسٹارٹ کی اور چل پڑا۔۔۔!! ہمارے ہاں تو مجرموں کو پکڑنے سے لیکر چھوڑنے تک اور پھر کبھی کبھی انکا ان کاؤنٹر بھی باہمی دلچسپی کے اُمور میں ہی طے ہوتا ہے۔
پلاٹ یا گھر کی خرید و فروخت ہویا پھر نقشے کی منظوری کا معاملا ہو یہ بھی سرکاری قوائد ضوابط کو پس پشت ڈال کر باہمی دلچسپی کی ایک بیٹھک میں حل کر لئے جاتے ہیں۔ادھرتعلیمی ادارے بھی باہمی دلچسپی کے اُمور کے زیر اثر نظر آتے ہیں،،پیپرز کے دوران ایگزامینر سے باہمی ملاقات پیپرز کو کافی حد تک سہل بنا دیتی ہے باقی رہی سہی کسر یا پوزیشنز کے لئے بورڈ آفس کی متعلقہ شخصیت سے ایک باہمی نشست طالب علم کو سر خرو کر دیتی ہے جبکہ اسپتالوں میں او پی ڈی کے باہر لمبی لمبی قطاروں سے لیکر ایمر جنسی اور وارڈ زمیں مریض کے لئے بیڈ تک کے انتظامات باہمی گفتوشُنید سے نمٹائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی ملکی و خارجی سطح کے تمام معاملات بھی حکومت کے دو ایک بڑوں کے مابین باہمی ملاقاتوں میں ہی طے پاتے ہیں جبکہ کابینہ فقط نام اور طعام پر اکتفا کرتی ہے۔
غرض یہ کہ ملکی سطح سے لیکر بین الاقوامی سطح تک استعماری قوتوں کے چند کردار باہمی دلچسپی کے اُمور کے زیر سا یہ محض اپنے ذاتی مفادات پروان چڑھا رہے ہیں۔حقائق بتاتے ہیں کہ ایران عراق جنگ سے لیکر افغانستان اور مشرق وسطی کو آگ میں دکھیلنا کسی طور بھی اجتماعی سوچ کے تحت نہیں تھا بلکہ ان ملکوں پر چڑھائی باہمی دلچسپی کے اُمور کی چھتری کے تلے عمل میں لائی گئی جسکا خمیازہ مذکورہ ممالک کے نہتے باسی آج تک بھگت رہے ہیں۔