تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ریاض احمد خاں سے شاید بھول ہوگئی ہے کہ سود کی ممانعت اور اس کے حرام ہونے کا حکم تو قرآن مجید میں موجود ہے اس میں کسی کو تبدیلی کا اختیار تو تا قیامت بھی نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے ہمیشہ مقتدر افراد اور اہم شخصیات حتیٰ کہ جج حضرات بھی اسلامی اقدار سے ماورا ٔ فیصلے کرتے رہے ہیں اور ان کا آج تک کسی نے احتساب تک نہیں کیا اسی لیے ایسی بولیاں بولنے والے جری ہوتے جارہے ہیںجج کا یہ کہناکہ اس وقت( یعنی نبی اکرمۖ)کے دور کے نظام کو آج کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے سراسر غیر اسلامی اور غیر شرعی باتیں ہیںا ور پھر یہ کسی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے منہ سے نکلیں تو صد افسوس ہی کیے جانے اور سرپیٹ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیںکہ ایسی شخصیات کے خلاف کوئی عالم دین کسی قسم کی بات کرنے اور فتویٰ دینے سے بھی کنی کترا جائے گا کسی عام آدمی کے منہ سے ایسی بات غلطی سے بھی نکل جاتی تو وہ مستوجب سزا ٹھہر کر شاید تختہ دار پر کھنچ گیا ہوتاکہ ایسے الفاظ سرا سر توہین رسالت کے ہی زمرے میںآتے ہیں مگر چونکہ یہ الفاظ ایسے فرد کے منہ سے نکلے ہیں جو کہ اہم عہدہ پر اور وہ بھی ملکی عدلیہ کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے اس لیے قوم کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
علماء گُنگ ہیں اور فتویٰ دینے والے تو کیوں بولیں گے؟ ان کا یہ بھی فرمانا کہ Interestکی تعریف سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھی جاتی ہے اور بھی اس معاملہ کو گھمبیر بناڈالتا ہے کہ یہ بھی قرآنی نص کے خلاف ہی ہے ایسے بیانات تو سیکولر اور سامراجی غیر مسلم بیرونی دنیا میں عام طور پر اسلام کا مذاق اڑانے کے لیے پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں کہ وہ اسے نام نہاد ترقی پسندی کہہ کہ بیان کرڈالتے ہیں اوراس کا جواز بھی گھڑ کر پیش کردیتے ہیں شرعی احکامات کی تعمیل ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ہمارے آقائے نامدار محمد ۖ کی طرف سے جو حکم آگیا ہو وہ ہمارے لیے اول و آخر ہے سود کے بارے میں اسلام کے واضح احکامات کی ہی وجہ سے اسی وفاقی شرعی عدالت نے 1991میں اپنے فیصلہ میں سود کی تمام اقسام اورتمام سودی کاروباروں کو خلاف اسلام قرار دیکر حکومت کو انھیں یکسر ختم کر ڈالنے کا حکم دیا تھا جب حکمرانوں نے ایسے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو وہاں سے بھی بیعنہہ اسے خلاف اسلام قرار دیکر اس کے مکمل خاتمے کے حکم کی تائید کی گئی۔ کمانڈو مشرف چونکہ خود سیکولر ترقی پسند خیالات اور رنگ نگیلے کرادر کی وجہ سے مغربی دنیا کی تابعداری کرنا بہتر اورضروری سمجھتا تھا تو اس دور میں سپریم کورٹ سے دوبارہ اس کو وفاقی شرعی عدالت میں بھجوادیا گیا تاکہ اس پردوبارہ غور و غوض کیا جاسکے غرضیکہ ایسی اوچھی غیر مناسب حرکات کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس طرح اس کو اِدھر اُدھر لڑھکانے اور گھوم چکری سے حکومت سود کے خاتمے کے احکامات سے بچی رہے گی اور ایسا ہی آج تک ہوتا رہا ہے۔
اس طرح 2002سے یہ کیس دوبارہ وفاقی شریعت کورٹ میں چل رہا ہے اور آج2017میں بھی 15سال گذر نے کے بعد خواہ مخواہ بحث و تمہیض اور لمبی عدالتی پیشیاں ڈال کر کاروائیاں مکمل کی جارہی ہیں تاکہ یہ سرا سر کافرانہ اور دنیا کاذلیل ترین عوام کا خون چوسنے والا نظام ہم پاکستانیوں خصوصاً مسلمانوں کے سر پر لٹکتا اور ہمیں گناہ گار کرتا رہے۔ہمارے ترقی پسند مغرب کی نقالی کرنے میں ہی عظمت سمجھتے ہیں مگر ہمیں قرآن مجید کے واضح احکاما ت کی خلاف ورزی کی اجازت تو تاقیامت کوئی عدالت دے ہی نہیں سکتی ہمارے معاشرہ میں اسلام دشمنی بھی مغربی سامراجیت کی غلامی کی وجہ سے سرائیت کرچکی ہے کل کو کوئی صاحب دیگر شرعی قوانین و ضوابط کورد کرنے پر تل جائے گا اور ہم پھر ایرے غیرے بیگانے بنے اس کا منہ تکتے رہ جائیں گے خواتین کے پردہ اور انکے حقوق کے بارے میں ترقی پسند نام نہاد روشن خیال افراد پہلے ہی اظہار کرتے رہے ہیں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو پاکستان کی اسلامی بنیاد ہی کے مخالف ہیں اور اسے ایک سیکولر سٹیٹ بنانے پر تلے بیٹھے رہتے ہیں۔
ہمیں ان سب کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے اور قرانی شرعی قوانین میں کتر بیونت یا انھیں موجودہ دور پر عجیب و غریب انداز میں تبدیلیاں کرکے نافذ کرنے سے قطعاً گریز کرنا چاہیے اللہ کا فرمان کہ سود اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔اگر کوئی شخص اپنی سگی ماں سے 69دفعہ زنا کرلے تو بھی سود لینے والے دینے والے اور ایسے معاہدہ میں شامل ہونے والے ہی نسبتاًبڑے گناہ کے مرتکب ہوں گے۔ایسے سود کے بارے میں احکامات وفرمان رد کرنے والا جج کیا 295Cکا مرتکب مجرم قرار نہیں پاتا؟کیا یہ قانون ،نیم خواندہ اور کسی بیوقوف فرد کے کسی توہین رسالت کے لفظ کہنے پر ہی نافذ ہو سکتا ہے۔
اور کیا اگر پڑھا لکھا جج ایسے توہین رسالت کے الفاظ کھلی عدالت میں ادا کر ڈالے تو پھر اس پردفعہ295/Cکا اطلاق اور نفاذ نہیں ہو سکتا ۔قوم قانون کی جلد عملداری کی منتظر رہے گی کہJustice delayed is Justice denied کہ دیر سے دیا گیا انصاف انصاف نہ فراہم کرنے کے مترادف ہوتا ہے ہمیں سودی قرضوں نے تباہی کے دہانے پر پہنچا ڈالا ہے کہ سابقہ سود ی قرضے اتارنے کے لیے مزید سودی قرضے لینے پڑتے ہیں اس طرح ہم معاشی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں مگر خود ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں اور اس کافرانہ بدترین نظام سود سے جان چھڑانے کی قطعاً فکر نہیں کرتے تو پھر کہاں سے ہم پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں گی؟ بتائیے تو سہی ایسے گناہوں کے مرتکبین اور ایسی سرزمین جہاں ایسے قبیح گناہ سرزد ہورہے ہوں وہاں رحمت کے فرشتے تو کیا اتریں گے؟ مگر ہمیں اور حکمرانوں کوخدا کے عذاب اور قہر سے ڈرتے رہنا چاہیے۔وما علینا الا البلاغ۔