تحریر: روشن خٹک صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کے بارے میں عوام کے مِلے جلے تائثرات سننے کو مِلتے ہیں۔اگر دو بندے حکومت کی کاکردگی سے مطمئن ہیں تو تین بندے موجودہ صوبائی حکومت سے غیر مطمئن اور شاکی بھی نظر آتے ہیںلیکن حال ہی میں خیبر پختونخوا کے صوبائی سمبلی نے ایک ایسا بِل منظور کیا ہے ،جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ، کم ہے اوروہ بِل ہے ، ”KP Prohiition of interest on private loans Act”یعنی پرائیویٹ قرضوں پر سود کی وصولی کے خاتمہ کے لئے بِل” ایسا بِل نہ صرف یہ کہ آئینِ پاکستان کا تقاضا تھا بلکہ وقت کی ایک اہم ضرورت بھی تھی ، کیونکہ سود ایک ایسی سماجی برائی ہے جس کی جتنی بھی برائی کی جائے ،کم ہے، یہ ایک سفاک قاتل کی طرح غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کو سفاکانہ طریقے سے قتل کرنے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑے واضح لفظوں میں فرمایا ہے (ترجمہ سورة البقرا آیت نمبر ٢٧٨،٢٧٩)
”ائے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو، اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جائو ” گویا سود کھانے والوں کے لئے اللہ اور اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ لڑنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے،اور ہ ایک ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ مثلا زنا کرنے، شراب پینے یا چوری کرنے جیسے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابی ِرسول حضرت عبداللہ بن عباس رضیاللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صور ت میں اس کی گردن اڑادے،(تفسیر ابن کثیر) ………. جبکہ سردارِ دو عا لم ،سرورِ کائنات حضرت محمد ۖ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ” سود کے ٧٠ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنیٰ درجہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے ( البیہقی،طبرانی،مالک) اللہ تعالیٰ کا حکم ، ارشادِ نبی کریم ۖ اور صحابہ کرام کے ارشادات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سود لینا ایک ایسا گناہِ کبیرہ ہے
Khyber Pakhtunkhwa
جس سے معاشرے کو پاک کرنا حکومتِ وقت کی بھی ذمہ داری ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا نے صوبائی اسمبلی میں سود کے ممانعت کے لئے بِل منظور کرا کر اپنی ایک ذمہ داری کو بہ احسنِ تقویم نبھایا ہے جو پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔اس بِل کے مطا بق انفرادی،اجتماعی یا گروپ کی صورت میں یا ذاتی حیثیت میں سود کے طور پر رقم لینے والا اس قانون کے تحت قابلِ گرفت ہو گا جس کو اسے سب سیکشن ١ کے تحت کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید کی سزا دی جا سکی گی جبکہ قید کے علاوہ دس لاکھ روپے تک جر مانہ بھی ہو سکے گا ، مزید برآں جو کوئی بھی ارادی طور پر اور اپنی مرضی سے سود لینے کے سلسلے میں کسی کو آمادہ کرے گا ، سود لینے والے کی مدد کرے گا یا سود کی وصولی یا سود پر مبنی لین دین کرے گا وہ بھی ساس بِل کے سیکشن ٣ کے تحت قابلِ گرفت ہو گا ”…حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جس طرح دوسرے بہت سارے سماجی برائیوں کے عادی ہو گئے ہیں اور برائی کو اب برئی بھی نہیں سمجھتے، اسی طرح احساسِ زیاں سے عاری ہمارامعاشرہ اب سود جیسے برائی کو بھی برا نہیں سمجھتے۔حالانکہ سود خود کسی بھی معاشرے کے ہلاک کرنے کا مئو جب بنتا ہے،اور اس وقت توہوسِ زر ،حصولِ مال کے لئے ایک ایسی دوڑ شروع ہو چکی ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں سو چتے کہ دولت حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے ،، بلکہ اب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لئے جائز سمجھنا شروع کر دیا ہے ،حالانکہ رسول ۖ نے نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے ، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے۔
یہاں یہ ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ مال و دولت کا حصول کو ئی برائی نہیں، بلکہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کے نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے کیو نکہ انسان اس سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے لیکن شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز و حلال طریقہ سے ہی مال کمائے ، حلال رزق کا طلب کرنا اور اس سے بچوں کی تربیٹ کرنا خود دین ہے مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ مال جائز اور حلال طریقہ سے کمایا جائے۔جبکہ سود بالکل واضح طور پر حرام اور ناجائز طریقہ ہے لہذا صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کا سود کی ممانعت کا بِل منظور کرنا ایک احسن اقدام ضرور اٹھایا ہے مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بِل کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔