شرح سود 10 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے سے کاروباری برادری کی امیدوں پر پانی پھر گیا

Business

Business

کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود 10 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے کاروباری برادری کی شرح سود میں کمی کیے جانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔

صنعتکاروں وتاجروں کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خوداعتراف کیا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر، روپے کی قدر، افراط زر کی شرح اور لارج اسکیل مینوفیکچرنگ سمیت معاشی اظہاریے میں بہتری آئی ہے، مہنگائی کی شرح بھی 10 فیصد کم ہے، اس کے بعد شرح سوح سود کو دہرے ہندسے میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، پالیسی سازوں کے زمینی حقائق کے برعکس غلط فیصلوں کے نتیجے میں قرضوں پر شرح سود طویل دورانیے سے سنگل ڈیجٹ پر لانے کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں۔

محض خدشات کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں جس سے کاروباری برادری کو انتہائی مایوسی ہوئی، اسٹیٹ بینک کوزری پالیسی نرم کرنی چاہیے تھی کیونکہ زری پالیسی سخت رکھنے کے فیصلے سے پہلے بہتر نتائج حاصل ہوئے نہ اب ملیں گے، کاروباری لاگت میں کمی کے لیے شرح سود سنگل ڈیجٹ پرلانی چاہیے۔

یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اشرف محمود وتھرا نے اسٹیٹ بینک کے ہیڈ آفس کراچی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں آئندہ 2 ماہ کے لیے زری پالیسی بیان جاری کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ معاشی اظہاریے بہتر ہیں تاہم پاکستان کو درپیش مسائل بالخصوص آبادی میں اضافے کی شرح کے مطابق وسائل مہیا کرنے اور روزگار کی کمی پوری کرنے کے لیے 4 فیصد کی شرح نمو ناکافی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بورڈ مانیٹری پالیسی کے تعین میں پوری طرح آزاد ہے، سال 2012-13 کے مقابلے میں سال 2013-14 میں معاشی اظہاریے قدرے بہتر ہوئے ہیں تاہم معاشی چیلنجز اب بھی موجود ہیں، معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے محتاط پالیسیوں اور مربوط ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہیں۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سینٹرل چیئرمین یاسین صدیق نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمد کنندگان کو توقع تھی کہ نئی مانیٹری پالیسی میں ڈسکاؤنٹ ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے گا لیکن ہفتپ کو اعلان کردہ پالیسی میں ڈسکاؤنٹ ریٹ بغیرکسی تبدیلی کے 10 فیصد پر مستحکم رکھے جانے کے اعلان سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمدکنندگان کو زبردست مایوسی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی انڈسٹری کی خواہش ہے کہ ملک میں پیداواری لاگت میں کمی کرتے ہوئے بیرونی دنیا میں پاکستانی مصنوعات مسابقت کے قابل ہو سکیں لیکن پالیسی سازوں کے توقعات کے برعکس فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف پیداواری لاگت میں کمی کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں بلکہ دعوؤں کے باوجود افراط زر کی شرح میں بھی کمی ناممکن ہے۔ انہوں نے گورنراسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈسکاؤنٹ ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کے لیے اقدامات بروئے کار لائیں تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے بحران کے ساتھ زائد پیداواری لاگت جیسے سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہے۔

وہ اپنی پیداواری لاگت کو گھٹا کر اپنے خریداروں کو سستی مصنوعات کی خریداری کے لیے زیادہ سے زیادہ راغب کرسکیں اور ملکی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں خوش کن حد تک اضافہ ہوسکے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر ہارون اگر نے کہا کہ ڈسکاؤنٹ ریٹ کوسنگل ڈیجٹ پر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس اہم ضرورت سے پالیسی سازوں کا ناآشنا ہونا تعجب خیز امر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو یورپین یونین سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے باوجود مطلوبہ نوعیت کے اضافی برآمدی آرڈرز کے حصول میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑہا رہا ہے جبکہ پالیسی سازوں نے صرف اندیشوں اور امکانات کی بنیاد پر ڈسکاؤنٹ ریٹ کو مستقل ڈبل ڈیجٹ رکھنے کا غیردانشمندانہ فیصلہ کررکھا ہے، اگر ملک میں سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھی گئی توٹیکسٹائل سمیت دیگر تجارت وصنعتی شعبوں کے بحران میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

ہارون اگر نے کہا کہ اوورہیڈ اور کاروباری لاگت زائد ہونے کی وجہ سے مقامی برآمدی صنعتیں اپنے اہم حریف ممالک بھارت، ویتنام اور سری لنکا سے مسابقت نہیں کرپارہے ہیں جبکہ پاکستان میں صنعتوں کے درآمدی خام مال کی قیمتیں زائد ہوتی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سخت مانیٹری پالیسی کوبرقرار رکھنے سے افراط زر کی شرح کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔

فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین شیخ محمد تحسین، وائس آف انڈسٹریلسٹ (واکی) کے چیئرمین مہتاب الدین چاؤلہ، لسبیلہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر اسماعیل ستار نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان صنعتی ومعاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے، صنعت وتجارت میں پورے پاکستان سے تمام سے صنعکاروں سے یک زبان ہوکر اسٹیٹ بینک سے بارہا یہ اپیل کی تھی کہ ڈسکاؤنٹ ریٹ سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے تاکہ معیشت کی بحالی کی راہ ہموار ہوسکے لیکن اسٹیٹ بینک نے اپنی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے شرح سود میں کوئی کمی نہیں کی۔