کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ قانونی طور پر پاکستا ن میں تو مرزائیت کا تابوت بند کردیا گیا ہے مگر چونکہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی طرح انہیں بھی انگریزوں اور دیگر غیر مسلم اقوام کی سر پرستی اور امداد حاصل ہے،اس لئے ان کی ریشہ دوانیاں بدستور پاکستان اور بیرون پاکستان جاری ہیں۔جن کا تدارک موجودہ حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومت بعض مسلسل قادیانیوں کی سرپرستی کر رہی ہے، پاکستان کے ہر شہر میں قادیانیوں نے مسجد نما عبادت خانے بنا کر رکھے ہوئے ہیں جہاں گمراہ کن تبلیغ دی جاتی ہے اور قانونی سرپرستی میں قادیانی لٹریچر پھیلایا جاتا ہے، بھٹو مرحوم نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ختم نبوتۖ کے قانون پر بحیثیت وزیر اعظم دستخط کئے ، مرحوم وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹوکے طرز سیاست سے ہزار اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کا عقیدہ ختم نبوت پر کامل ایمان ہی سو سالہ پرانا قضیہ مسلمانانان پاکستان کی مرضی کے مطابق طے کرنے کا باعث بنا ہے بالآخر یہ فیصلہ پوری دنیا میں مسلمان ممالک کے لئے مثال بن گی،ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پارلیمنٹ میں قائد تحریک ختم نبوت امام نورانی کی پیش کردہ قرارداد منظور کی،امام شاہ احمد نورانی کہتے تھے کہ بھٹو مرحوم کے لئے ختم نبوتۖ قانون پر دستخط کرنا ہی بخشش کا ذریعہ ہوسکتا ہے،امام شاہ احمد نورانی صدیقی کی قیادت میں تمام مسالک اور مکاتب فکر کے علماء کرام و اکابرین نے ختم نبوتۖ کے قانون کے لئے عظیم جدوجہد کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے وہ تاریخی قرار داد منظور کی جس کے تحت آئین پاکستان کی دو دفعات میں ترمیم کی گئی آئین پاکستان کی دفعہ 106کی شق 3 میں فرقوں بعد حسب ذیل نئی شق شامل کی گئی ”قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے تمام اشخاص (جو اپنے آپ کواحمدی کہتے ہیں)کے الفاظ درج کئے جائیں اس طرح آئین کی دفعہ 206کی شق2میں حسب ذیل شق شامل کی گئی ”جو شخص حضرت محمدۖ جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا حضرت محمد ۖ کے بعد کسی بھی مفہوم میں کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے” ،1973کی پارلیمنٹ نے لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر غیر مسلم ا قلیت قرار دیا،اس قراردادِ اقلیت کی متفقہ منظوری کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں آپ کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتا کہ اس مسئلہ کے باعث اکثر میں پریشان رہا اور راتوں کو مجھے نیند نہیں آئی اس مسئلہ پر جو فیصلہ ہوا ہے۔
میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں مجھے اس فیصلہ کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے جس کا اثر،مملکت کے تحفظ پر ہوسکتا ہے یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا،پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے ہیں اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے میں اس فیصلہ کو جمہوری طریقہ سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کررہا پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اسلام کی خدمت ہماری پارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے”،قادیانیوں کے حوالے سے انہیں نے کہا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے یعنی ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے،بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں اپنے مسلمان ہونے اورختم نبوت پر پختہ ایمان رکھنے پر فخرہے، قادیانی مسئلہ پاکستان کے عوام کا مسئلہ ہے اور وہ عوام کے کسی مسئلے پر نظراندازنہیں کرسکتے،مگر پیپلز پارٹی اپنے بانی اور قائد کے نقش قدم سے ہٹ چکی ہے، شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہ اکہ مفادات کی سیاست کو بچانے کے لئے پرانے دشمن دوست بن گئے ہیں اور خاموش حمایت کی حکمت عملی ترتیب د رہے ہیں، لبرل و سیکولر قوتیں جال پھینک رہی ہیں،عوام ہوشیار رہے، جنہوں نے پانچ سال میں کوئی کام نہیں کیا اب وہ عوام کے دکھ کو اپنا درد بتانے کی کوشش کر رہے ہیں،الیکشن قریب آتے ہی ہر بار کی طرح سے اس بار بھی جھوٹے وعدے اور دعویٰ کئے جائینگے۔
جاری کردہ سیف الاسلام 0311-0442922 نورانی میڈیا سیل جمعیت علماء پاکستان